صیون پر مارچ

Video

 

July 4, 2015

،تقریباً 4000 سال قبل، میسوپوٹامیہ میں ابراھیم پر خداوند ظاہر ہوا، اور اس سے کہا

تم اپنے ملک سے باہر نکل جاؤ، اور اپنے لوگوں اور" ،اپنے باپ کے گھر کو چھوڑ دو

،اس ملک کی سرزمین کی طرف چل پڑو جو میں تجھے دکھاؤں "اور وہاں میں تجھے ایک عظیم قوم بنا دوں۔

ابراھیم نے رب کی فرمانبرداری کی اور وعدہ کردہ سرزمین کنعان میں آگیا

جہاں وہ اپنے فرزند اسحاق اور اپنے پوتے یعقوب جن کا نام بعد میں تبدیل کر کے "اسرائیل" رکھ دیا گیا، سب کے ساتھ رہنے لگے۔

کنعان کی سرزمین میں قحط سالی کی وجہ سے اسرائیل اپنے بیٹوں کے ساتھ مصر چلے گئے

اور وہاں ان کا خاندان تیزی سے بڑھ کر ایک زورآور قوم بن گیا۔ اسرائیل کو اپنے درمیان ایک طاقتور قوم کی صورت میں پنپتا ہوا

،دیکھ کر مصریوں نے اسے اپنے لئے خطرہ کی ایک گھنٹی محسوس کیا چنانچہ مصریوں نے اُن کو اپنا غلام بنالیا اور سخت پابندیوں

میں جکڑ کر ان کی زندگیاں انتہائی اجیرن کردیں۔ مصر میں سال گزرنے کے بعد موسی نے اپنی قیادت میں انہیں اس غلامی سے نجات دلوائی

،پھر، وہ بحیرہ احمر کو عبور کر کے عرب کی جانب روانہ ہوئے

جہاں انہیں کوہ سینا پر خداوند کا قانون موصول ہوا۔

اسرائیلیوں کی وہ نسل جس نے موسی کے ساتھ مصر چھوڑا تھا، انہیں مقدس سرزمین پر داخل ہونے کی اجازت نہیں تھی

کیونکہ ان میں خداوند پر مضبوط ایمان کا فقدان تھا۔

وہ برس تک ریگزاروں میں خانہ بدوشوں کی طرح بھٹکنے پر مجبور ہوئے حتی کہ انکی ایک نئی نسل پروان چڑھی

چونکہ وہ خداوند پر ایمان رکھتے تھے لہذا وہ یشوع کے ساتھ وعدہ کردہ مقدس سرزمین میں داخل ہوپائے۔

کم و بیش برس تک بنی اسرائیل کے قبیلوں پر موسی کی شریعت کے مطابق عادل حاکموں نے حکومت کی۔

اور دیگر تمام قوموں کی طرح جب انہوں نے ایک بادشاہ کی خواہش کی، تو خداوند نے ساؤل کو ان کا بادشاہ

مقرر کردیا، جس نے سال تک ان پر حکومت کی جس کے بعد بادشاہ داؤد نے سال حکومت کی، اور اس کے

بعد داؤد کے بیٹے سلیمان نے سال حکومت کی۔ سلیمان کے دور حکومت میں، اسرائیل کی بادشاہت

اپنے انتہائی عروج پر تھی۔ اور اسی دور میں سب سے اولین مقدس گھر تعمیر کیا گیا تھا،

لیکن چونکہ اپنی عمر کے آخری دور میں سلیمان کا دل اپنے رب سے دور ہوگیا تو،

خداوند نے اس سے کہا کہ اس کا بیٹا قبائل پر بادشاہت نہیں کرے گا۔

سلیمان کی وفات کے بعد، اسرائیل کی بادشاہت تقسیم ہوگئی تھی، اور شمالی قبیلوں پر یکے بعد دیگرے ان فاسق

ظالم بادشاہوں نے حکومت کی جو داؤد اور سلیمان کی اگلی نسلوں میں سے نہیں تھے۔

اس شمالی سلطنت نے سابقہ نام اسرائیل برقرار رکھا اور بالآخر سماریہ ہی اس کا دارالحکومت بنا۔

جبکہ اس سے قدرے چھوٹی جنوبی بادشاہت وجود میں آئی اور یہودہ کے نام سے معروف ہوئی، اور یروشلم اس کا دارالحکومت بنا،

اور جس پر داؤد کی اولادوں نے حکومت کی۔ ابتدائی بادشاہوں سے ، جنوبی سلطنت کے لوگ،

سلطنت کو یہودا کا نام ملنے کے بعد، "یہودی" کے نام سے معروف ہوئے۔

اسرائیل کی شمالی ریاست کی شیطانیت کے باعث، آسریئن کی جانب سے ان کا تختہ الٹ دیا گیا،

اور انہیں اسیر بنا لیا گیا۔ بنی اسرائیل جو بعدازاں ان کافر قوموں کے ساتھ مل کر رہے، جو یہاں

داخل ہوئے اور اس سرزمین پر قبضہ کرلیا۔ یہ لوگ سامری قوم کے نام سے پہچانے گئے،

اور شمالی اسرائیل کے قبائل پھر کبھی ایک قوم نہ بن سکے۔

یہودا کی شمالی ریاست کو، بالآخر دیگر دیوتاؤں کو پوجنے پر بطور سزا، بابلیوں نے اپنے قبضے میں لے لیا،

اور یہودیوں کی عبادت گاہ کو نیست و نابود کر دیا،

لیکن سال کے بعد، یہودیی واپس یہودا کی طرف لوٹ آئے اور یروشلم میں اپنی عبادت گاہ کو ازسرنو دوبارہ

تعمیر کیا، اور داؤد کی نسل سے بادشاہوں کے زیر حکومت رہنا جاری رکھا۔

یسوع مسیح کے دور میں، رومی حکومت کے تحت، یہودا کی ریاست یہودیہ کہلائی۔

یسوع مسیح اور اس کے تابعین نے، اپنی کھوئی ہوئی بھیڑ تلاش کرنے کے بہانے، یہودیہ میں گھر گھر جا کر

اسرائیل میں گوسپل/انجیل کی تبلیغ کی۔ تبلیغ کے اور نصف سال بعد،

یہودیوں نے عیسی کو بطور اپنا مسیحا مسترد کر دیا اور رومی حاکم کو اسے سُولی پر چڑھانے پر آمادہ کرلیا۔

تین () دن کے بعد، وہ مُردوں میں سے دوبارہ جی اٹھا اور اپنے پیروکاروں کے درمیان خود کو زندہ ظاہر کر دیا

قبل اس کے کہ آسمانی باپ کے داہنے ہاتھ کی جانب اوپر اٹھایا جاتا۔

یسوع کو سُولی پر چڑھانے سے کچھ ہی دیر قبل، ان کے مسترد کئے جانے کی سزا کے طور پر، انہوں نے یہ پیشن گوئی کی کہ

،یروشلم جل کر راکھ ہوجائے گا، مقدس گھر تباہ و برباد ہوجائے گا اور سب یہودی دیگر تمام قوموں کے زیر تسلط غلام بنا لئے جائیں گے۔

یہ پیشن گوئی یسوع کی وفات کے سال بعد اس صورت میں پوری ہوئی کہ رومی شہنشاہ ٹائیٹس نے یروشلم فتح کرلیا۔

اٹھارہ سو سال سے زائد عرصہ تک، یہودی دنیا کے تقریباً تمام ملکوں میں دربدر بھٹکتے اور ٹھوکریں کھاتے رہے۔

حتی کہ ء میں، ناممکن حقیقت بن گیا۔ ،اسرائیل کی ریاست معرض وجود میں آگئی

اور ایک بار پھر بیت المقدس کی سرزمین یہودوں کے قبضہ میں آگئی۔

بہت سے عیسائیوں کے نزدیک، یہ خداوند کی طرف سے ایک معجزہ گویا ایک نعمت کا اعلان تھا

لیکن، کیا یہ واقعی خداوند کی طرف سے ایک نعمت ہے یا شیطانی قوتوں کے کرتوتوں کا شاخصانہ؟ اس سوال کا جواب یہ فلم ہے۔

پادری اینڈرسن: جدید اسرائیلی ریاست کی بنیادوں کو سمجھنے کے لیے آپ کو

یسوع کی وفات کے سال بعد سے لیکر اس وقت تک کی یہودیوں کی تاریخ سمجھنی ہوگی۔

اور آپ کو یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اب ان کا مذہب کچھ بھی بائیبل (انجیل) پر مبنی نہیں۔

مثال کے طور پر، جب سے مقدس گھر کو تباہ کیا گیا، وہ کسی بھی جانور کی قربانی نہیں کرتے۔

رابی مان: جہاں تک جانور کی قربانیوں کا معاملہ ہے، وہ سلسلہ متروک ہے۔

رابی ابرامی: ختم ہوچکا ہے!

رابی مان: اور یہودیت میں جو کچھ ترقی ہوئی، وہ محض عبادت کا ایک نظام ہے،

جو کہ ایک متبادل کے طور پر رائج ہوا ہے۔

رابی وینر: جی، میرے خیال میں یہ مذہبی جدیدیت کا آغاز تھا۔ مجھے اس پر مکمل یقین ہے۔

قائد شنال: جب سے مقدس گھر تباہ ہوا، اس وقت سے یہودیوں کے پاس کوئی مرکزی مقام نہیں رہا۔

وہ منتشر ہوگئے تھے۔ انہوں نے واقعتاً یہودیت کی اصل نوعیت ہی تبدیل کر دی تھی،

اور یہودیت کی یہ تغیر پذیری، پادریانہ یہودیت سے ربانی یہودیت میں ایک تبدیلی کی صورت پر منتج ہوئی۔

پادری اینڈرسن: قدیم عہد نامہ کی یہودیت کا مذہبی باب بند ہوگیا اور

راہبوں اور ان کی روایات کا ایک نیا مذہب شروع ہوا، یا وہ کچھ جسے وہ "زبانی توریت" کہتے ہیں۔

ٹیکزی مارس: تلمود یہودیوں کی مقدس کتاب ہے۔ یہ رابیوں کے زبانی اقوال پر مبنی ہے۔

اس کو رابیوں کی حکمت سمجھا جاتا ہے۔

رابی ابرامی: تلمود ایک تالیف ہے جس میں وہ تمام اذکار و مباحث شامل ہیں جو

جو صدی قبل مسیح سے ویں صدی عیسوی تک واقع ہوئیں۔ یہ یہودی معلومات کا گویا ایک انسائیکلوپیڈیا ہے۔

اس کو بہترین طور پر نام دینا ہو تو یہ بلاشبہ اس دور کا ایک یہودی ویکی پیڈیا ہے۔

جی ہاں، کیونکہ بہت سے لوگوں نے اس میں حصہ لیا ہے۔ اور یہ کسی ایک شخص نہیں لکھا ہے۔

کئی سو علماء – سینکڑوں مصنفین کا کام ہے۔

پادری اینڈرسن: یہودیت کے مطابق، زبانی قانون، یا جو بعدازاں تلمود کے نام سے معروف ہوا

تلمود، دراصل کوہ سینا کی اساس پر آنے والے ان بزرگوں کو تفویض کیا گیا تھا جنہیں

مزید پیش رفت کرنے کی اجازت نہیں ملی۔ یہودی راہبین کے خیال میں موسی کے مقابلے میں، ان بزرگوں کو

وحی کا علم، کہیں زیادہ وسعت اور گہرائی سے حاصل ہوا تھا، جس کے لکھے جانے کی اجازت نہیں تھی۔

یہ محض زبانی کلامی طور پر آگے منتقل کی گئی۔ اِن زبانی روایات کو تحریری توریت پر فوقیت دی گئی۔

توریت، یا جسے ہم جینیسز آف ڈیوٹرونومی (استثنائے پیدائش) کے نام سے جانتے ہیں۔ اس کی ٹھوس دلیل ازخود تلمود میں پائی جاتی ہے:

ایروبن: "میرے بیٹے، کاتبوں کے الفاظ پر غور و فکر کرتے وقت انتہائی احتیاط برتنا،

نہ کہ توریت کے الفاظ پر ۔"

رابی مان: یہی وہ بنیادی فرق ہے جو تقلید پسندوں کو غیر مقلدوں سے الگ کرتا ہے۔

پادری اینڈرسن: غیر مقلدین تلمود کو کیا زیادہ انسانی-اختراع سمجھتے ہیں؟

رابی مان: ترقی کے لئے زیادہ تر انسانی-اختراع کو فوقیت حاصل ہے جیسا کہ رواں دور میں اور آئیندہ بھی متوقع ہے۔

پادری اینڈرسن: کیا آپ تلمود پر یقین رکھتے ہیں کہ یہ خداوند کی طرف سے نازل کردہ ہے۔

رابی مان: جی ہاں، یہ خدا کی طرف سے نازل کردہ ہے۔

رابی وینر: مقدس صحیفہ کے ساتھ کچھ بھی کرنا خدا کا کلام سمجھا جائے گا

اور وہ بھی ایک بڑے حصے کے ذریعے ...

پادری اینڈرسن: بشمول تلمود بھی؟

ربی وینر: جی ہاں.

ٹیکزی مارس: اس نے کہا، " تم موسی کے دین پر ایمان نہیں رکھتے۔ تمہارے لئے تمہارا دین ہے، "

اس نے یہودیوں کو بتایا، " تمہارے پاس اپنے دین کے لئے جو کچھ ہے وہ تمہارے بزرگوں کی روایات ہیں۔"

آیت : ، یسوع، فریسیز سے کہا "تو بھی یہ بے فائدہ ہوگا وہ میری پرستش کریں، اور

آدمیوں کے احکامات کے نظریات کی تعلیم دیں۔"

پادری اینڈرسن: اور تلمود آدمیوں کے نظریات پر مبنی ہے۔

رابی مان: ایک عام فرد کیلئے جو کہ تربیت یافتہ نہیں، یہ ممکن نہیں کہ وہ صرف تلمود کو پڑھے اور زبانی قانون

کو سمجھے، یہ بہت پیچیدہ ہے۔ اس کے لئے آپ کو ایک استاد کی ضرورت ہوگی۔

پادری اینڈرسن: کیا کوئی ایسا رابی ہے جس نے تلمود کو لفظ بہ لفظ پڑھا ہو؟

ربی وینر: مجھے نہیں معلوم۔ یہ اس پر منحصر ہے کہ وہ کیا پڑھ رہے ہیں۔

پادری اینڈرسن: کیا تم نے اسے لفظ بہ لفظ پڑھا ہے؟

ربی وینر: میں یہ نہیں کہوں گا کہ میں نے تمام جلدیں پڑھیں ہیں، لیکن میں نے کئی پڑھی ہیں۔

پادری اینڈرسن: ظاہر ہے تم نے کافی کچھ پڑھا ہے۔

رابی وینئر: جی ہاں، لیکن مجھے یقین ہے کہ وہ لوگ جو اپنی توانائیاں وقف کرتے ہیں، وہ محض

مطالعہ مکمل کرنے کے لئے ہی کرتے ہیں۔

پادری اینڈرسن: اس طرح سے تو یہودیی تمام تاریخی ادوار میں ہمیشہ سے سب ہی جانتے تھے کہ اگر عیسائی یہ جان لیں کہ

تلمود میں کیا تھا، تو عیسائی بہت ناراض ہوجاتے، جبکہ یہودی، خداوند یسوع مسیح کے بارے میں انتہائی گستاخانہ

بیانات اس لئے چھپانے کے قابل ہوسکے کہ لوگ عبرانی زبان نہیں جانتے تھے۔

ٹیکزی مارس: یہاں یسوع کے بارے میں وہی کچھ کہتے ہیں، جو دراصل تلمود میں ہے۔

تلمود میں یسوع کے بارے میں مخصوص حصّے ہیں۔

درحقیقت، اس موضوع پر پرنسیٹن یونیورسٹی میں جوڈیک اسٹڈیز کے سربراہ، ڈاکٹر شہفر نے

"جیزز ان دا تلمود" کے نام سے ایک پوری کتاب تحریر کی ہے۔

لہذا اگر آپ یہ جاننا چاہتے ہیں کہ تلمود میں یسوع کے بارے میں کیا بیان ہوا ہے

تو ڈاکٹر شہفر کی کتاب "جیزز ان دا تلمود" میں دیکھیں۔

پیٹر شہفر، پرنسٹن یونیورسٹی میں جوڈیک اسٹڈیز کے سربراہ ہیں۔

اپنی کتاب "جیزز اِن تلمود" میں اس نے، تلمود کے صفحات میں یسوع کا جتنی مرتبہ ذکر آیا،

اس ذکر کو ہر بار دستاویزی حوالوں اور تجزیات کے ساتھ پیش کیا ہے۔

پادری اینڈرسن: یہ ذہن نشین رکھیں کہ تلمود یسوع مسیح کے بعد، سینکڑوں سال بعد لکھی گئی،

لہذا، اس میں یسوع مسیح کے بارے میں جو حوالے دیئے گئے ہیں ، وہ نفرت انگیز اور توہین آمیز حوالہ جات ہیں۔

تلمود کے مطابق، یسوع زنا کی پیداوار تھا:

مریم اور پینتھر نامی ایک رومی فوجی کا ناجائز بیٹا تھا۔

اس نے اپنی ابتدائی زندگی مصر میں بسر کی، جہاں اس نے کالا جادو، بت پرستی، اور سفلی علم سیکھا۔

ٹیکزی مارس: یسوع ایک پیشہ ور طوائف کے ہاں پیدا ہوا۔ مریم ایک طوائف تھی۔

اس کے کئی مردوں کے ساتھ جنسی تعلقات تھے۔ اس کا والد ایک رومی صوبہ دار تھا۔

تلمود مزید خداوند یسوع کی مزید توہین کرتے ہوئے ان کو ایک احمق قرار دیتی ہے اور ان کا موازنہ

قدیم صحیفہ کے بد ذات لوگ جیسے بلعام، آھیٹوفل، دوئیگ اور جیحازی سے کرتی ہے۔

پادری اینڈرسن: کیا تلمود یسوع کو یہودیوں کی جانب سے قتل کئے جانے کی کوئی خبر دیتی ہے؟

رابی مان: مبہم طور پر، لیکن مائیمونیڈس کے خیال میں انہیں یہودیوں نے ہی ہلاک کیا -

کیونکہ یہودیوں ںے محض ان کے مخصوص الہام اور دیگر وجوہات کی باعث ان کو سزائے موت دی۔

پادری اینڈرسن: کیا آپ کو یقین ہے کہ یہودیوں نے یسوع کو ہلاک کیا؟

رابی مان: یہ ممکن ہے کہ یہودیوں نے عیسی کو قتل کیا ہو۔ چلیں مان لیتے ہیں کہ انہوں نے ایسا کیا۔ شاید وہ اس

موت کے مستحق تھا۔ چلیں فرض کرلیتے ہیں کہ یہ ہم نے کیا۔ لہذا ہم ہی نے کسی کو مار ڈالا۔

پادری اینڈرسن: تلمود میں دراصل یسوع کی جوانی کی موت کے بارے میں فخریہ اظہار کیا گیا ہے۔ اس کے الفاظ

میں "کیا تو نے سنا کہ بلعام کس عمر کا تھا؟ اس نے جواب دیا، خونی اور دھوکے باز آدمی کو باقی نصف زندگی نہیں جینے

دینا چاہیئے۔ آگے بیان ہوتا ہے کہ وہ یا کی عمر کا تھا۔ آپ کہتے ہیں، " ٹھہیرو، وہ سطر کہتی ہے بلعام،

یسوع نہیں،" لیکن زیریں صفحہ کے حاشیہ پر دیکھیں: "تلمود میں بلعام بطور یسوع،

متواتر استعمال ہوا ہے۔" محض اسی میں نہیں، بلکہ جوئش انسائیکلوپیڈیا میں بھی،

جلد ، صفحہ ، بلعام کے تحت کہا گیا، "بلعام - سان ہیڈرن b میں یسوع کو لقب دیا گیا

اور گیٹن a میں بھی۔

پیٹر شہفر نے اپنی کتاب "جیزز اِن تلمود" میں بیان کیا ہے کہ اس بات میں کوئی شک نہیں کیا جاسکتا

کہ تلمود میں مذکور سزائے موت دیئے جانے کا قصہ یسوع کے حوالے سے ہے۔ درحقیقت کتاب یہ کہتی ہے کہ،

"اس میں شرم محسوس کرنے کی کوئی وجہ نہیں کیونکہ ہم نے حق کے ساتھ ایک گستاخ اور بت پرست کو پھانسی دے دی۔

عیسی موت کا مستحق تھا، اور اسے وہی کچھ ملا جس کا وہ مستحق تھا۔"

ایک اور جگہ یہ کتاب بیان کرتی ہے کہ، "وہ ایک گستاخ اور بت پرست تھا، اور اگرچہ رومیوں کو بھی کچھ کم پرواہ

نہ ہوئی ہوگی، ہم اسی بات پر اصرار کیا کہ اسے وہی کچھ ملا جس کا وہ مستحق تھا۔ چاہے ہم نے رومی حاکم کو آمادہ کیا ہو

(یا اس سے زیادہ خصوصیت سے: اسے ماننے پر مجبور کردیا) اس گمراہ اور دھوکے باز کو سُولی چڑھانا ضروری تھا

اور ہمیں اس پر فخر ہے ۔"

پبشرز ویکلی میں شائع ہونے والے ایک آرٹیکل میں اپنی کتاب کے بارے میں شہفر نے کہا کہ

میں یہودی عیسائی مذاکرات کو ہرگز نقصان نہیں” پہنچانا چاہتا۔ لیکن مذاکرات سچائی کا تقاضہ کرتے ہیں، اور

“میں سچائی سے کوشش کر رہا ہوں۔

ٹیکزی مارس: اب یہاں مسیحائی یہودی ہیں، جو تلمود کو قبول کر کے اسے عیسائی بنانا چاہتے ہیں۔

آپ کس طرح ایک لعنتی کتاب کو قبول کرسکتے ہیں اور پھر اسے عیسائی بنا سکتے ہیں؟

جبکہ یسوع مسیح کے بارے میں ان کے تمام جھوٹ اس میں موجود ہیں۔

چرچ کے پادریوں نے عیسی کی موت کا ذمہ دار یہودیوں کو قرار دے دیا،

اور یہ پال ہی کا کام تھا جس نے پہلا مراسلہ تھِسلُنیکیوں کو لکھا۔

"کیونکہ تم، تمہارے بھائی، خداوند کے کیلیسا گھروں کے پیروکار بن گئے

اور کون تھا جو یسوع مسیح کے ساتھ یہودیہ میں تھا: یہ تمہیں تھے جو اپنے

ہم وطنوں کے ساتھ اور یہودی بھی پیش پیش رہے: اور دونوں نے مل کر خداوند یسوع مسیح کو مار ڈالا۔۔۔"

پادری اینڈرسن: اب، اس کا کیا مطلب ہوا؟

رابی: بدقسمتی سے مسیحوں کی نئی نسلوں کے اذہان کو اس نے زہر آلود کر دیا ہے۔

کیا تمہیں یہ معلوم تھا؟

پادری اینڈرسن: تو، تھسلنیکیوں ...

رابی ابرامی: یہ پال ہے!

آج تک % فیصد امریکی عوام اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ یسوع مسیح کی موت کے اصل ذمہ دار یہودی تھے۔

ٹیکزی مارس: جب میل گیپسن اپنی فلم "دا پیشن آف کرائسٹ،" کی رونمائی کی لوگوں نے کہا،

"اوہ، یہ تو یہودی-مخالف ہے! کس قدر ہولناک شخص ہے یہ! وہ کہتا ہے یہودیوں نے یسوع کو مار ڈالا"

اچھا، یہی کچھ تو بائیبل میں ہے۔

رابی ابرامی: جب اس فلم "دا پیشن آف دا کرائسٹ" دیکھائی گئی، تو یہ تعداد بڑھ کر % تا % فیصد ہوگئی

کیونکہ لوگ بہت سادہ لوح ہیں۔ اس فلم میں یہ تصویرکشی کی گئی کہ یہودی انتہائی شیطان صفت لوگ ہیں، جو کہ بکواس ہے!

پادری اینڈرسن: یہودی اس کو "ایک فرضی قصہ کہتے ہیں کہ جس میں یہودیوں نے یسوع کو مار ڈالا۔" آپ ذرا مجھے

اس کی کچھ وضاحت کرنے دیں: یہ حقیقت کہ یہودیوں نے ہی یسوع کو ہلاک کیا تھا کوئی فرضی قصہ نہیں ہے۔ یہ بائیبل کا بیان ہے۔

رابی ابرامی: عیسائیوں نے پہلے بھی اس پر یقین کیا، اور وہ آج تک، اب بھی کرتے ہیں۔ وہ آج بھی کرتے ہیں!

یہ بات ان کے ذہن میں نقش ہوگئی تھی۔ انہوں نے تمام تمام یہودیوں کو ملامت کیا،

اگرچہ زیادہ تر یہودی وہاں پر نہیں تھے

پادری اینڈرسن: ایکٹس : دیکھیں، اس پہ لکھا ہے:

"یہ ہمارے باپ دادا کے خدا، ابراہیم، اسحاق اور یعقوب کے خدا کی طرف سے ہے، جس نے اپنے فرزند عیسی کو جلال بخشا؛

یہ وہی عیسی ہے جسے تم نے دشمن کے حوالے کر کے پیلاطس کے سامنے رد کیا،

اگرچہ وہ اسے رہا کرنے کا فیصلہ کرچکا تھا۔"

پادری اینڈرسن: یہاں وہ ہزاروں یہودیوں میں تبلیغ کر رہا ہے اور وہ کہتا ہے کہ :

"اور اب، میرے بھائیو، میں جانتا ہوں کہ انہوں نے اور ان کے حکمرانوں نے اپنی غفلت کے سبب ایسا کیا۔"

پادری اینڈرسن: ایک منٹ رکیں۔ میں سمجھتا تھا کہ وہ صرف حکمران تھے؟ نہیں، اس نے کہا ،

" تم نے کیا، اور یہی تمہارے حکمرانوں نے بھی۔" اس کا مطلب یہ ہے کہ صرف حکمران ہی نہ تھے، اس میں اور لوگ بھی شامل تھے۔

اگر ہم بائیبل کو بغور پڑھیں، تو معلوم ہوگا کہ ہزارہا ہزار لوگوں کا مجمع تھا،

ہزاروں یہودی چیخ رہے تھے،"اسے مار ڈالو" اور اس نے پوچھا، "کیا میں تمہارے بادشاہ کو مار ڈالوں؟"

"ہمارا کوئی اور بادشاہ نہیں ہے لیکن صرف سیزر ہے۔" "تو پھر میں اس شخص کے خون بہا سے آزاد ہوتا ہوں،"

رومن پیلاطس نے کہا. "اس کے خون کا حساب ہم پر اور ہمارے بچوں پر ہوگا!" "یہ ہے وہ بات جو انہوں نے کہی ہے۔

ٹیکزی مارس: یہ بات وہاں لکھی ہوئی ہے کہ یسوع نے یہودیت کو بگاڑ دیا، اور اُس کے اس جرم کی پاداش میں بطور سزا،

اب وہ جہنم کی آگ میں جل رہا ہے، اور وہ ہمیشہ اس میں جلتا رہے گا۔

پادری کولیمن: وہ یسوع مسیح سے نفرت کرتے ہیں، وہ اس کے نام سے بھی نفرت کرتے ہیں۔ اس لئے کہ میرے خیال

میں یہ شیطان کی اولاد ہیں، نہ کہ خداوند کی اولاد۔ لہذا جب اُس میں مسیح کے لئے شیطان کو – دیکھو

کتنی نفرت تھی، تو تم کیا سمجھتے ہو اس کے بچوں میں کیا ہوگی؟

ٹیکزی مارس: ایک اوسط عام یہودی کا خیال ہے کہ قدیم عہد نامہ، قصّے اور کہانیوں کی ایک شاندار کتاب ہے،

جس کے معنی بھی بہت اچھے ہیں، لیکن آپ صرف بغور مطالعہ کر کے ہی قدیم عہدنامہ،

تلمود اور کبالاح کو سمجھ سکتے ہیں۔

پادری اینڈرسن: یہودیوں نے توریت کی ابتداء پیدائش، باب سے یقین کرنا ترک کردیا ہے۔

ربی وینر: میرے خیال میں ایسی تخلیقی طرز لازوال ہے، اور ارتقاء اس کے عمل کا حصہ ہے،

اور اس کی شروعات میری نظر میں، یہ تمھیں بھی معلوم ہوگا، کچھ لوگ ہیں جو بگ بینگ تھیوری پر بات کرتے ہیں۔

میرا ان کے ساتھ کوئی جھگڑا نہیں ہے۔

پادری اینڈرسن: تو آپ نقطہ آغاز کو پیدائش کے ساتھ بہشت کے باغ اور اژدھا، سب کو

ایک ساتھ نہیں دیکھتے۔۔۔ کیا آپ اس پر کامل یقین نہیں رکھتے، تو پھر؟

ربی وینر: نہیں، میرے لئے، یہ سب قصّے کہانیاں ہیں۔

پادری اینڈرسن: جب آپ موسی کی بنیادی تعلیمات کی کتابوں پر نظر ڈالتے ہیں، پیدائش تا استثناء، تو کیا

یہودی واقعی ان میں سے کسی پر بھی یقین نہیں کرتے۔

میں جانتا ہوں کہ ختنہ کا معاملہ، ایک بڑا حصہ ہے ...

لیڈر شنال: آؤچ!

پادری اینڈرسن: میرے خیال میں یہ یہودیت کا ایک اہم حصہ ہے، کیا میں صحیح ہوں؟

لیڈر شنال: ایسا ہی ہے۔

ربی وینر: اگر کوئی بالغ جس کا ختنہ نہیں ہوا ہو، تبدیلی کے لئے میرے پاس آتا ہے، تو یہ ایک

بہت سادہ معاملہ ہے۔ آپ ایک پن (سوئی) لیں اور بس P **** میں چبھا دیں،

تاکہ خون کا ایک قطرہ باہر آجائے، اور اتنا ہی کافی ہے۔

پادری اینڈرسن: تو اب یہ محض ایک علامتی رسم ہے؟

رابی وینر: درست۔

لیڈر شنال: محض اپنی رضامندی کے اظہار کے لئے، تاکہ اس عہد کا ایک حصّہ بن سکیں۔

پادری اینڈرسن: تو، وہ پوری چمڑی (زائد کھال) نہیں ہٹاتے؟ وہ محض اسے علامتی طور سے انجام دیتے ہیں...

لیڈر شنال: جی بالکل۔

پادری اینڈرسن: اچھا، تورات میں مذکور ہے، کہ ابراہیم اس وقت سال کے تھے جب ان کا ختنہ کیا گیا،

اور ان کے فرزند اسماعیل کی عمر سال تھی، لیکن آجکل وہ ایسا نہیں کرتے؟

لیڈر شنال: وہ ایسا نہیں کرتے۔

پادری اینڈرسن: اب ہم بطور جدید عہد کے عیسائی ختنہ کا عمل نہیں کرتے،

لیکن یہودی، یاد رکھیں، یہی کہہ رہے ہیں کہ وہ اب بھی موسی کے دین کو مانتے ہیں، لہذا اگر وہ حقیقتاً

اس کی پیروی کر رہے ہوتے تو مکمل زائد چمڑی نکال کر مذہب تبدیل کرنے والے بالغ کا ختنہ کرتے۔

یہی توریت کی تعلیمات ہیں۔

پادری برزنس: میں نے اس قول کو کئی بار سنا ہے، "اوہ، یہودی صرف قدیم عہد نامہ پر یقین رکھتے ہیں۔

وہ ہمارے ہر کام پر یقین رکھتے ہیں، سوائے یسوع کے،" اور یہ سراسر ایک جھوٹ ہے۔

وہ خداوند پر یقین نہیں کرتے۔ وہ عیسی پر یقین نہیں کرتے۔ وہ قدیم عہد نامہ پر یقین نہیں کرتے،

اور وہ جدید عہد نامے پر بھی یقین نہیں کرتے۔ وہ کسی میں بھی یقین نہیں کرتے۔

ربی وینر: اور یہ کس طرح تعین کیا جائے کہ کیا اچھا ہے اور کیا بُرا ہے؟ اسے "تہذیب" کہتے ہیں۔

لوگ باہم مل جل کر تعین کرتے ہیں، "تمہیں چوری نہیں کرنا چاہیئے۔" لہذا تہذیب یہ کہتی ہے، "یہ بُرا کام ہے۔"

اسی طرح آپ اچھائی کو ماپتے ہیں۔ اگر آپ ایک ایسے معاشرے سے آئے ہوں جس میں چوری کرنا اچھا سمجھا جاتا ہو،

تو اس طرح کوئی تہذیب اچھے اور برے کا تعین کرتی ہے۔ اگر آپ چوری نہیں کرتے، تو آپ بُرے ہیں۔

گویا اگر آپ چوری کرتے ہیں تو، آپ ہم میں سے ہیں.

پادری اینڈرسن: کیا اچھے اور برے کا کوئی قطعی معیار ہے

جہاں چوری ہمیشہ بری مانی جائے کیونکہ خداوند نے کہا ہے؟

رابی وینر: میرے خیال میں ایسا کوئی معیار نہیں ہے۔

پادری رومیرو: یہ یوحنا میں درج ہے: :-

"جو موسی پر ایمان لائے، گویا وہ مجھ پر ایمان لایا؛ جس نے میرے بارے میں لکھا۔

لیکن اگر تم اس کی تحریروں پر ایمان نہیں رکھتے، تو تم کس طرح میرے الفاظ پر یقین کروں گے؟

پادری رومیرو: یسوع مسیح اس دن یہودیوں سے کہہ رہے تھے وہ لوگ موسی پر یقین نہیں کرتے۔

ان کا کامل دعوی تھا کہ وہ موسی پر یقین کرتے تھے، لیکن یسوع پر انہیں یقین نہ تھا،

لیکن اس نے یہاں وضاحت کی، کہ اگر تم میرا یقین نہیں کرتے، تو پھر تم موسی پر بھی یقین نہیں کرتے۔

رابی وینر: ہم مختلف عمل کرتے ہیں۔ ہم مختلف طور پر یقین کرتے ہیں، اور ہوسکتا ہے کہ ہماری سوچ

مختلف ہو، لیکن منزل سب کی ایک ہی ہے۔ ہم خدا تک پہنچنے کی کوشش کر رہے ہیں،

اور یہی سب کا کُل مقصد ہے۔

پادری اینڈرسن: تو آپ کو یقین ہے کہ تمام مذاہب ایک ہی سمت پر چل رہے ہیں اور ایک ہی منزل کی جانب رواں ہیں۔

وہاں تک پہنچنے کیلئے، بس الگ اور مختلف راستے ہیں؟

رابی وینر: جی بالکل! وہاں پہنچنے کے مختلف راستے ہیں، اور مختلف افہام و تفہیم ہیں

کہ وہ وہاں کیسے پہنچیں گے، لیکن اس طرح کوئی ایک راستہ دوسرے کو اس سے بہتر نہیں بناتا۔ خداوند تک پہنچنے کا کوئی

ایک ہی راستہ مقرر نہیں ہے۔ اور نہ ہی خدا کے بارے میں کوئی ایک منفرد سوچ ہے۔ خداوند کو سمجھنے کے لئے، ہمیں

ایک دوسرے کو سمجھنا ہوگا۔ ہمیں خود کو سمجھنا ہوگا۔

رابی ابرامی: نجات کا کوئی متبادل نہیں۔ آپ وہی کریں جو درست ہے،

اور آپ ہر لمحہ خود کو بچائیں۔ خدا جنت میں نہیں ہے۔ اگر کوئی مجھ سے یہ کہنا شروع کردے

کہ روح جنت میں ہے، وہ روحوں کے بارے میں کیا جانتے ہیں، کہ کیا لوگوں کی روحانی ارواح جنت میں ہوتی ہیں؟

یہ سب بچوں کو سمجھانے کے لئے ہے! آپ کو اسی طرح ان کو بتانا ہوگا۔

"دادا ابو آج گھر کیوں نہیں آئے؟" "اوہ، وہ تو جنت میں ہیں۔"

پادری اینڈرسن: جہنم کے بارے میں کیا خیال ہے؟ کیا یہودیت میں اس کا کوئی تصور ہے یا نہیں؟

جیسے سزا کے طور پر آگ والی جگہ میں ہونا ...

رابی ابرامی: میں جہنم میں رہا ہوں۔ ہم ھینان کی وادی کو جہنم کہتے ہیں۔

پادری اینڈرسن: ٹوفھیٹ بھی ہے نا؟

رابی ابرامی: یروشلم کے بالکل باہر ایک جگہ ہے جو

ھینان کے بیٹوں کی وادی کہلاتی ہے۔ یہ وہ جگہ تھی جہاں کفار ایک زمانے میں انسانوں کی قربانی پیش کرتے ہیں،

اور اپنی خام خیالی کی بناء پر، نہ جانے کس بنیاد پر وہ یہ تصور کرتے تھے کہ کائینات میں بھی اسی طرح کی کوئی

جگہ ہوگی جہاں فاسق (بدکردار) لوگ جائیں گے۔

پادری اینڈرسن: تو تم اس پر یقین نہیں رکھتے جو قدیم عہدنامہ کی تعلیمات

کسی بھی قسم کی واقعتاً جہنم کی خبر دیتی ہیں؟

رابی: نہیں

پادری اینڈرسن: اچھا، ٹھیک ہے۔

رابی وینر: بہت سے لوگ آپ کو یہ بتائیں گے کہ بائیبل کہتی ہے کہ اگر آپ کچھ نہیں کریں گے تو آپ کی زندگی

بری ہوگی، یا آپ بہت بری جگہ پر بھجوا دیئے جائیں گے

پادری اینڈرسن: جہنم

ربی وینر: ٹھیک، ہاں، ہم ویسے بھی اسے کسی بھی طور نہیں مانتے، لیکن میرے احساسات مختلف ہیں۔

پادری اینڈرسن: اگر یہودی پیدائش کی کہانی پر یقین نہیں کرتے، تو پھر وہ

واقعتاً آدم اور حوا کی کہانی پر بھی یقین نہیں کرتے، وہ نوح پر یقین نہیں کرتے، وہ بابل کے مینار پر

پر بھی یقین نہیں کرتے، وہ ان تمام قصائص کا مضحکہ اڑاتے ہیں، وہ بالغان کے ختنہ پر یقین نہیں کرتے،

وہ جانوروں کی قربانیاں کرنے پر یقین نہیں کرتے، تو وہ توریت کے کس حصے پر یقین کرتے ہیں؟!

اب تک تو قریب القیاس ان کی سب سے زیادہ معتبر کتاب ہونی چاہیئے اگر آپ توریت کی تعلیمات کے نقاط پر نظر ڈالیں،

تو وہ کسی پر بھی یقین نہیں کرتے۔

پادری اینڈرسن: آج کل بہت سے ایوینجلیکل عیسائی ایسے ملیں گے جو بہت اسرائیل نواز ہیں۔

ربی مان: بہت سارے۔

پادری اینڈرسن: عیسائی واقعی اسرائیل کی حمایت میں بہت سرگرم اور پُرجوش ہیں۔

اب کیا یہ تمام تر تاریخ میں اسی طرح سے کیا گیا ہے؟

لیڈر شنال: اوہ، خداوند، نہیں!

پادری اینڈرسن: یا یہ ایک نیا مظہر ہے؟

قائد شنال: نہیں، تمام تر تاریخ میں اس طرح نہیں ہوا۔

رابی مان: روایتی عیسائیت بنیادی طور پر یہود-مخالف تھی۔ عیسائی صیہونیت قدرے جدید مظہر ہے۔ وہ اس پر قائم

ہیں کہ یہود، خداوند کے چنیدہ لوگ ہیں اور یہ ہمیشہ خداوند کے چنیدہ بندے ہی رہے گے۔

ان کے لئے وہ یہ اصطلاح استعمال کرتے ہیں کہ "یہ خدا کی آنکھ کا تارا ہیں"

پادری اینڈرسن: اور کیا یہ تقریباً حال ہی کا مظہر ہے؟

رابی مان: جی ہاں! چند سو سال پہلے کا، جہاں تک میری معلومات ہیں۔

یہ بہت زیادہ دور کی بات نہیں ہے۔

رابی مان: تبدیل الہیات نے عیسائیت میں بہت اہم کردار ادا کیا ہے۔

ٹی وی مبلغ : متبادل الہیات کیا ہے؟

ہال لینڈسے: تبدیلی الہیات، عیسائیت اور یہودی-مخالف کی ایک شاخ اور جڑ ہے۔

ٹی وی مبلغ : یہ چرچ میں ایک وائرس کی طرح ہے.

ٹی وی مبلغ : بنیادی طور پر وہ یہ کہہ رہا ہے کہ چرچ نے اب اسرائیل کو فوقیت دے دی ہے،

اور یہ الہیات جو کہ یہودی لوگوں کو ان کے اپنے مقام سے نکال کر چرچ کا متبادل دیتی ہے،

یہ نیا اور حقیقی روحانی اسرائیل، بہت خطرناک ہے کیونکہ میں سمجھتا ہوں

کہ یہ یہود-مخالف کی بنیادی جڑ ہے۔

رابی امرامی: بہت سے متکلمین (گرچہ کہ صدیوں سے، متبادل الہیات کی تبلیغ کرتے چلے آ رہے ہیں)

پادری اینڈرسن: کیا آپ ان کے کچھ نام لے سکتےہیں، جنہوں نے اس کی تبلیغ کی؟

رابی ابرامی: یہاں جان کرسوسٹم کے بارے میں میرے پاس سب کچھ ہے۔

وہ یہود-مخالف چرچ کا سربراہ ہے۔

جان کرسوسٹم: "کنسیہ (یہودیوں کی عبادت گاہ) کسی کوٹھے سے بھی زیادہ بدتر ہے۔ یہ ایک کمین گاہ ہے اور

درندوں کا مسکن ہے۔ اور بیت المقدس جنونی فرقوں کے لئے وقف ہے ۔۔۔

یہ اوباشوں کی پناہ گاہ اور شیطانوں کا مسکن ہے۔ یہ ...یہودیوں کی ایک جرائم گاہ ہے

مسیح کے قاتلوں کے اجتماع کی جگہ۔۔۔ چوروں کا مسکن، ایک رنڈی خانہ، اور

شیطانوں کی پناہ گاہ، اور ہلاکت کی خلیج پاتال۔ میں ان کی روحوں کے بارے میں یہی کچھ کہوں گا۔"

رابی ابرامی: انہوں نے یہودیوں کا حوا بنا دیا ہے، یہ اب بھی بہت سے دماغوں میں موجود ہے۔

پادری اینڈرسن: تمام تاریخ میں، عیسائیوں نے یہودیوں کو کبھی خداوند کے چنیدہ بندوں کی نظر سے نہیں دیکھا

وہ انہیں دھتکارے ہوئے لوگوں کی نظر سے دیکھتے ہیں یسوع مسیح کی جانب سے بھی لہذا خداوند کی جانب

سے بھی۔ مثال کے طور پر، مارٹن لوتھر نے اپنی موت سے قبل لکھی ہوئی اپنی آخری کتاب جو "آن دا جیوز اینڈ

دیئر لائیز،" تھی، اور کتاب میں ہر قسم کے صحیفوں سے دلائل دیتے ہوئے یہ بتایا کہ

کیونکر یہودی خداوند کے چنیدہ لوگ نہیں ہیں، اور اور اس تلمود میں دی گئی بہت زیادہ توہین آمیز بیہودہ

تعلیمات کو بھی آشکار کیا۔

ٹیکزی مارس: اپنے آخری خطبہ میں اس نے یہودیوں کے کے بارے میں تبلیغ کرتے ہوئے کہا، کہ یہودی ہمارے

خداوند اور نجات دہندہ یسوع مسیح سے نفرت کرتے ہیں، اور اپنے مکارانہ روّی سے اپنی عیاری اور چالاکی سے ،

ہمیں دھوکہ دینے کے لئے ہر قسم کی ریشادوانیاں کرتے رہے ہیں۔ وہ ان سے سخت ناراض تھا، اس نے واقعتاً یہ کہا

ہم سب کو جا کر تلمود کے تمام نسخے جلا دینے چاہیئیں۔ وہ تلمود کے بارے میں غصّہ سے بھرا ہوا تھا۔

تو ظاہر ہے، اسی لئے آج یہودی اس کو بہت بڑا یہودی-مخالف (کٹر) سمجھتے ہیں۔

رابی ابرامی: سینٹ آگوسٹین اس سے بہتر نہ تھا۔

پادری اینڈرسن: وہ بھی یہودی-مخالف تھا۔

ربی ابرامی: بالکل ٹھیک! وہ اول درجہ کا ذلیل اور یہ سب نفرت ہی نفرت تھی۔

پادری اینڈرسن: اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ آپ کس کو سن رہے ہیں، چاہے جان کراسوسٹم، سینٹ آگوسٹین،

پیٹر دی والینرایبل، مارٹن لوتھر، جان کیلوین، آپ کسی بھی چرچ فادر کا نام لیں۔ پوری تاریخ میں آپ کی

زبان پر پوٹیسٹنٹ فادر ہی کا نام آئے گا۔ اور وہ سب یہودیوں کے بارے میں ایک ہی بات کہہ رہے ہیں: وہ یہ کہ

وہ سب شیطان کے چیلے ہیں، وہ ایک غلط مذہب ہے۔ یہ فلسفہ کہ یہودی اب بھی خداوند کے چنیدہ لوگ ہیں

ایک نیا فلسفہ ہے۔

ٹیکزی مارس: آپ جانتے ہیں، کہ ویں صدی کے اواخر میں، یہ باتیں سب کو معلوم ہوگئی تھی، جس پر آج ہم بات کر

رہے ہیں، لیکن پھر کچھ تبدیل ہونا شروع ہوگیا، سب سے پہلے ڈاکٹر سائرس اسکوفیلڈ کے ساتھ۔

پادری فرسی: سی۔ آئی اسکوفیلڈ ایک طلاق شدہ آدمی تھا۔ وہ شراب کی لت میں مبتلا تھا۔ وہ ایک وکیل تھا جو بعد میں

ایک مبلغ بن گیا تھا۔ اس نے اپنی پہلی بیوی لیئونٹائین سیری کو ء میں چھوڑ دیا تھا۔ یہی وہ سال ہے جس کے بعد

اس نے اپنی پہلی کتاب "رائٹلی ڈیوائڈنگ دا ورلڈ آف ٹروتھ" لکھی۔ لہذا، ء میں وہ اپنی پہلی کتاب

"رائٹلی ڈیوائڈنگ دا ورلڈ آف ٹروتھ،" لکھتا ہے اور میں اپنی پہلی بیوی کو چھوڑ دیتا ہے، اور ایک اور خاتون

سے شادی کرتا ہے، اور پھر ٹیکساس میں ایک پادری بن جاتا ہے – بہت مشہور اور بہت مقبول ہوجاتا ہے۔ اسکوفیلڈ کی

تقسیم کردہ، پرانی طرز کی بائیبل میں ترامیم کے ساتھ چند اُن ممتاز تاجروں کی مالی معاونت سے،

جن میں سے کچھ کے قابل اعتراض مذہبی تحفظات تھے۔

ٹیکزی مارس: اس کے کچھ یہودی خادم تھے جنہوں نے اسے لوٹس کلب، ایک طرح کی خفیہ سوسائٹی، کا میمبر بنوایا

اور پھر اچانک اس کے پاس بے تحاشہ دولت آ گئی۔ اس بدعنوان وکیل جس نے اپنی بیوی کو ترک کر دیا،

اور بحیثیت ایک بدعنوان اٹارنی جو کہ متعدد خلاف ورزیوں کا مرتکب پایا گیا – لیکن اسکوفیلڈ ،

کو دولت دی گئی، اور کہیں سے انگلینڈ کے آکسفورڈ گروپ نے اس کی بائیبل چھاپی۔

انہوں نے کیوں ایک دغا باز وکیل کو سراہا بلکہ بائیبل کا مدیر بنا ڈالا؟

اور پھر اچانک ہی تشہیر کیلئے اس کے پاس لاکھوں ڈالرز بھی آگئے۔ اتنی رقم سے تو اس بائیبل کی کتاب کو اڑنا ہی تھا،

دراصل بنیادی طور سے یہ یہودیوں کے لیے گویا مہر ثبت کر دی گئی تھی۔

پادری اینڈرسن: اسکوفیلڈ کی یہ بائبل بہت اسرائیل-نواز، بہت صیہونی تھی، اور اس کتاب نے

کسی بھی دیگر کتاب کے مقابلے میں، نوجوان مبلغ لڑکوں کی پوری

نسل کی سوچ کو تبدیل کر کے رکھ دیا تھا۔

پادری جمنیز: ایک اور عقیدہ عیسائیوں میں ہے جو کہ ایک غلط عقیدہ ہے، جو کہ ہماری کتابوں میں نہیں پایا جاتا،

وہ عقیدہ یہ ہے کہ ہمیں اسرائیل کو نوازنا چاہیئے۔ وہ اس کے قلابے ابراہیمی عہد سے ملا کر حوالے دیتے ہیں

وہ واپس پھر جینیسز ، کا حوالہ دے کر یہ کہتے ہیں،

"ہمیں اسرائیل کو نوازنا ہوگا اگر ہم چاہتے ہیں کہ خداوند ہمیں نوازے، ہمیں انہیں نوازنا بنانا ہوگا"۔

جینیسز :- کتاب کا ایک کلیدی نقطہ ہے جہاں خداوند ابراہیم کو مخاطب کرتا اور نوازتا ہے۔ اس میں یوں ہے،

"اب رب نے ابراہیم سے کہا، تم اپنے ملک سے باہر نکل جاؤ، اور اپنے لوگوں اور

اپنے باپ کے گھر کو چھوڑ دو، اس ملک کی سرزمین کی طرف چل پڑو جو میں تجھے دکھاؤں، اور وہاں میں تجھے ایک

عظیم قوم بنا دوں۔ اور تجھے سرفرازی بخشوں گا اور تیرے نام کو سرفراز کردوں گا؛

اور تجھ پر وہ رحمتیں نازل کروں گا کہ نعمتیں تجھ پر برسیں گی: اور تجھ سے جو روگرانی کرے گا، اسے برائی میں مبتلا کردوں گا:

اور تیرا خاندان دنیا کے تمام خاندانوں میں سب سے زیادہ مقدس اور بخشش والا ہوگا۔"

پادری اینڈرسن: اب اس صحیفہ کے مطابق خداوند کریم ابراہیم سے عہد لے رہا ہے، اور

وہ ابراہیم سے کہتا ہے، "میں تجھے بخش دوں گا۔" یہ لفظ "دی" یعنی "تجھے" یہاں پر واحد ہے۔ اور وہ ابراہیم سے بات کر رہا ہے۔

ویسے، جینیسز پر اسکوفیلڈ کے نقاط کو، اس نے مستقبل کے اسرائیل کے ملک و قوم پر بخششوں

کے ضمن سے لاگو کیا ہے۔ جبکہ اصل صحیفہ یہ تعلیمات نہیں دیتا۔ آج، بہت سے ایوینجلیکل عیسائی اسرائیل سے

متعلق ہدایات کے لئے، نئے عہد نامہ کے صحیفہ سے کچھ بھی نہیں لیتے۔

وہ اسکوفیلڈ کی حوالہ جاتی بائیبل سے متعلقہ نوٹس لے رہے ہیں۔

جب آپ قدیم ابراہیمی عہد نامہ میں دیئے گئے وعدوں کے بارے میں پڑھ رہے ہوں،

تو آپ کو یہ بات سمجھ لینا چاہیے کہ بائیبل میں گلاٹائینز : کیا تعلیم دے رہی ہے، جب وہ یہ کہتی ہے کہ:

"اب ابراہیم اور اس کی نسل سے کئے گئے وعدہ پورے کر دیئے گئے۔۔۔"

پادری جمینز: اب اگر ہم یہیں پر رُک جائیں، آج کے تمام عیسائی یا صیہونی یا کوئی بھی،

یہ کہہ سکتا ہے کہ، "دیکھا! یہ ابراہیم اور اس کی نسل کے لئے ہے، لیکن یہاں آیت جاری ہے۔ اور یہ کہتی ہے:

"اس نے یہ نہیں فرمایا، اور نسلوں (سیڈز) کے لئے۔۔۔" (لفظ کے آخر میں ایک "s" (اردو میں "وں") اسے جمع کا سیغہ بنا دیتا ہے)

""اس نے یہ نہیں فرمایا، اور نسلوں (سیڈز) کے لئے، جو کہ بے شمار ہیں؛ لیکن ایک ہی با مراد ہے، اور وہ ہے یسوع۔"

پادری اینڈرسن: تو بائبل کے مطابق، خداوند نے جو عہد باندھے تھے وہ ابراہیم اور یسوع کے ساتھ

وعدے کئے گئے وعدے تھے۔ اور بائیبل کی ایک آیت یہ کہتی ہے:

" اور اگر تم مسیح کے ہو، تو تم ابراہیم کے ہو، اور اُن سب کے وارث ہو جن کا خداوند نے وعدہ کیا ہے۔"

پادری اینڈرسن: بائبل کے مطابق، ہم بطور عیسائی، چاہے ہم یہودی ہوں یا کافر،

ابراہیم سے باندھے گئے عہد کے مطابق، اصل وارث ہیں۔ آج، وہ نہیں، جو مشرق وسطی کے ایک ملک اسرائیل

میں ہیں، وہ عیسائیت میں نہیں ہیں۔ ان میں سے % فیصد یسوع مسیح پر یقین نہیں رکھتے۔

لہذا، وہ ابراہیم کی نسل میں سے نہیں ہیں۔

لہذا، جینسز :- ان پر لاگو نہیں ہوتی۔

پاسٹر فرسی: لوگ پھر بھی یہی کہیں گے، "اچھا، اگر ہم اپنے اوپر خداوند کی بخشش چاہتے ہیں تو ہمیں ضرور

اسرائیل کی حمایت کرنا ہی پڑے گی۔ اگر ہم اپنے گرجا گھروں میں خداوند کی رحمت چاہتے ہیں، اگر ہم اپنے ملک

پر خداوند کی بخشش چاہتے ہیں، تو ہمیں طبعی و مادی طور پر اسرائیل کی لازماً حمایت کرنا ہوگی۔ ویسے اگر تم

پچھلے یا سال قبل، امریکی تاریخ پر شمار کرتے ہوئے نظر ڈالو، تو کیا تم ہمارے ملک پر خداوند کی رحمت پاتے ہو؟

کیا ہم نے کی دہائی میں اسقاط حمل کو قانوناً جائز قرار نہیں دیا؟ نہیں، یہ اس کے بعد واقع ہوا ہے۔ کے مقابلے میں

آج، ہم اس وقت کیسے تھے اور موازنہ کے طور پر آج ہم کیسے ہیں؟

تم مجھے اس بات پر قائیل نہیں کرسکتے کہ خداوند کی رحمتیں ہمارے ملک پر اس لئے نازل ہوئی کہ ایک "وعدہ" کی وجہ سے

چند حاضر لوگوں کے گروہ کی حمایت کی، جو کسی نہ کسی طرح سے خداوند کی رحمتوں کو ہمارے ملک پر لازم و ملزوم طور پر منسوب کرتا ہے۔

پادری اینڈرسن: کہ، صرف یہی نہیں، اگر آپ یہودیوں کی گزشتہ سالہ تاریخ پر ایک نظر ڈالیں تو،

کیا وہ خداوند کی طرف سے بخشش یافتہ رہے ہیں؟ نہیں، وہ جہاں بھی گئے، انہیں ہر ملک میں اذیت

اور نفرت کا نشانہ بنایا گیا۔ یہاں اس کتاب میں ہر اُس ملک

کا نام درج ہے جہاں سے یہودیوں کو گزشتہ برسوں میں ملک بدر کیا گیا، اور جب آپ اس طویل فہرست کو دیکھیں گے،

تو اپنے آپ سے آپ کو یہ پوچھنا پڑے گا، " کیوں ان کو اتنی اذیت اور نفرت کا نشانہ بنایا گیا ہر اس جگہ جہاں پر

پر وہ رہے؟" اس کا جواب یہ ہے کہ کیونکہ عیسائیت کی رسالت پر ان کی توہین آمیز خصلت تھی اور

کیونکہ لوٹ مار پر مبنی ان کے شاطرانہ مفاد پرستی تھی۔

ویں صدی کے اواخر میں، روس اور دیگر تمام ملکوں میں یہودیوں کا قتال شدت اختیار کرگیا، اور بے شمار

یہودیوں کو تب یہ یقین ہو چلا کہ اُن کے خوشحال مستقبل کا دارومدار کی واحد امید، ان کی تحویل میں اپنی ایک آزاد ملک اور ریاست کا ہونے

سے ہی ممکن ہے۔ یہ یقین پختہ ہو کر "صیہونیت" (زائینیزم) کے نام سے مشہور ہوا۔

رابی ابرامی: یہودی ریاست، تھیوڈور ھرٹزل کے ایک عظیم منصوبہ کا شاخصانہ تھی۔

پادری اینڈرسن: تھیوڈور ھرٹلزل؟

ربی وینر: وہ صیہونیت کا بانی تھا۔

رابی مان: اس نے یہ خیال پیش کیا کہ یہود-مخالفت کی وجہ یہ تھی کہ یہودیوں کے پاس ان کی اپنی کوئی

ریاست نہیں تھی۔

رابی ابرامی: اور اس نے ایک چھوٹا سا کتابچہ "یہودیوں کی ریاست،" لکھا اور اس میں یہ کہا کہ

مستقبل میں یہودی لوگوں کی حفاظت کا صرف ایک ہی طریقہ ہے: وہ یہ کہ یہودی یورپ چھوڑ دیں اور

اپنی آبائی سرزمین میں جا بسیں۔ اسرائیل کی سرزمین پر۔ پھر یہ کتاب بعدازاں صیہونیت کی بائیبل کہلائی

رابی وینر: صیہونیت اُن کی پیدائش نو کی عملی تشکیل تھی۔

جنگ عظیم کے ساتھ بیلفور اعلامیہ کے تحت ہی یہ عمل شروع کر دیا گیا تھا۔

رابی مان: بیلفور اعلامیہ ہی بہت بہت معنی خیز تھا یہ محض ایک دوست کو لکھے جانے والا عام خط نہیں تھا۔

پادری اینڈرسن: میں یہ سمجھتا ہوں کہ یہ ایک اہم ترین دستاویز تھی ...

رابی مان: ... برٹش پالیسی کی ترجمان۔

پادری اینڈرسن: تو بیلفور اعلامیہ لارڈ بیلفور کی جانب سے لکھا جانے والا ایک خط تھا۔

رابی ابرامی: جو لارڈ روتھسچائلڈ کو لکھا گیا۔

پادری اینڈرسن: دوسری جنگ میں، ترکی، جرمنی کا اتحادی تھا، جو کہ شکست کھا رہا تھا،

تو ترکی- سلطنت عثمانیہ کا شیرازہ بکھر گیا۔ کیونکہ جنگ عظیم کے بعد ترکوں کی سلطنت بکھر گئی تھی۔

عالمی جنگ کے بعد، برٹش لارڈ بیلفور نے اعلامیہ تحریر کیا جس میں کہا

کہ اب یہودیوں کے لئے ایک وطن ہونا چاہیئے۔

رابی ابرامی: جی ہاں، یہ بہت بڑی ہجرت کی شروعات تھی بنیادی طور پر مشرقی یورپ سے ہزارہا ہزار یہودیوں نے

آباد ہونے کے لئے اسرائیل میں ہجرت کی۔

پادری اینڈرسن: بیلفور اعلامیہ ایک خط تھا جو لارڈ روتھسچائلڈ کو لکھا گیا تھا،

لہذا بیلفوڈ اعلامیہ کو سمجھنے کے لئے ہمیں یہ جاننا ہوگا کہ روتھ چائیلڈ کون تھا۔

میئر امسچل روتھسچائلڈ: دولت طاقت ہے!

دولت ہی وہ واحد ہتھیار ہے جس سے یہودی کو اپنا دفاع کرنا ہوگا!

میئر امسچل بایوئر فرینکفرٹ، جرمنی میں میں پیدا ہوا، وہ ایک ساہوکار اور یہودی گلی

میں ایک سنار تھا، جس کی دوکان کے سامنے کی طرف ماتھے پر ایک سرخ چھ کونے والا ستارہ نما نشان تھا۔

بالآخر اس نے اپنا نام "روتھس چائیلڈ" رکھ لیا جس کا جرمن زبان میں معنی "سرخ نشان" کے ہیں۔

روتھس چائیلڈ جلد ہی یہ جان گیا تھا کہ حکومتوں اور بادشاہوں کو قرض دینا، نجی افراد کو قرض دینے کے

مقابلے میں کہیں زیادہ منافع بخش ہے۔ نہ صرف یہ کہ ایسے قرضے بڑے ہوتے ہیں، بلکہ ملک کے ٹیکسوں سے

محفوظ ہوتے ہیں۔ مائر روتھس چائیلڈ کے بیٹے تھے جنہیں اس نے دولت پیدا کرنے کے ہنر کی مہارت دی

اور انہیں یورپ کے بڑے دارلحکومتوں میں بھیجا تاکہ وہ

خاندانی بینکاری کی شاخیں کھول سکیں۔

میئر امسچل روتھس چائیلڈ: تم پانچ بھائی ہو۔ میں چاہتا ہوں کہ تم میں سے ہر ایک مختلف ممالک میں بینکاری شروع

کرے۔ ایک پیرس جائے اور وہاں شاخ کھولے، ایک ویانا میں، ایک لندن میں

- ہمیشہ سب سے اہم مراکز منتخب کرنا، تاکہ جب بھی پیسہ یہاں سے لندن بھیجنا ہو، تو بالفرض ہم یہ کہتے ہیں،

تم کو اپنی جان و مال (سونا) کو خطرے میں نہیں ڈالنا پڑے گا یہاں امسچل فرینکفرٹ سے صرف ایک خط ناتھان کو

لندن میں بھیجے گا جس میں لکھا ہوگا کہ "فلاں کو فلاں ادائیگی کردو"، اور یہ ایک طرح کا

حوالہ لندن تا فرینکفرٹ ہوگا۔ کیا تم سمجھ گئے ہو؟

پانچوں بیٹے: جی ہاں، ابا جی۔

میئر امسچل روتھس چائیلڈ: تمہارے آنے والے دور میں، یورپ میں کئی جنگیں ہوں گی، اور جن ملکوں کو پیسہ

ادھر اُدھر کرنا ہوگا تو وہ روتھس چائیلڈز کے پاس ہی آئیں گے، کیونکہ یہ محفوظ طریقہ ہوگا۔ تمہارے پانچوں بینکنگ

ہاؤسز پورے یورپ کا احاطہ کرسکیں گے، لیکن تم بطور ایک فرم – ایک فیملی ہوگے۔ بطور روتھس چائیلڈ جو

ہمیشہ اکھٹے کام کرتے ہیں۔ اور یہی تمہاری طاقت ہوگی۔

جب میں میئر امسچل روتھس چائیلڈ فوت ہوگیا، تو اس نے اپنے بیٹوں کے لیے وصیت چھوڑی جس میں

اپنے بیٹوں کے لئے ہدایات دی تھیں کہ کس طرح ہاؤس آف روتھس چائیلڈ کے معاملات دیکھے جائیں گے۔

- کہ تمام اہم عہدوں پر صرف روتھس چائیلڈ کے فیملی میمبرز ہی فائز رہیں گے۔

- اس فیملی میں صرف پہلے یا دوسرے کزن کے مابین ہی شادیاں ہوں گی،

پس اس طرح وسیع دولت کا تحفظ کیا گیا۔ - روتھس چائیلڈ کے ورثا کو سختی سے منع کیا گیا تھا

وہ اپنے اثاثہ جات کی مالیت ہرگز کسی پر ظاہر نہ کریں

پورا خاندان دولت اور طاقت جمع کرنے کی نہ ختم ہونے والی ہوس میں مبتلا ہوگیا تھا۔

انہوں نے خفیہ طور پر کئی یورپی جنگوں میں دونوں جانبین کو خفیہ مالیاتی سہولیات دیں، اور یورپین بینکنگ پر غلبہ حاصل کیا،

اور تقریباً کے وسط میں دنیا کے سب سے امیر ترین خاندان بن گئے۔

ٹیکزی مارس: روتھس چائیلڈ نے اسرائیل بننے میں مدد کی اور روتھس چائیلڈ ہمیشہ سے اسرائیل کی پشت پناہی

کرتا رہا۔ روتھس چائیلڈ جو چاہتا تھا، حاصل کرلیتا تھا۔

وہ دنیا میں امیر ترین آدمی تسلیم کیا جاتا تھا، لیکن مجھے اس بات پر تھوڑا شبہ رہا۔

باوجود یہ کہ بیلفور اعلامیہ میں لارڈ روتھس چائیلڈ کو دیا گیا، لیکن، ایک یہودی ریاست کا قیام عمل میں لانے

کی منصوبہ بندی پر تک عملدرآمد ممکن نہ تھا۔ ابھی اس نے جنگ عظیم کی ہولناک قربانیاں لینی تھیں

تاکہ فلسطین کی سرزمین پر ایک یہودی ریاست کی تخلیق کے پس پردہ عوامی ہمدردی اور متفقہ رائے کا حصول ہوسکے۔

پادری اینڈرسن: میں، اقوام متحدہ نے اعلان کیا تھا کہ فلسطین میں دو ریاستیں ہوں گی۔

ایک یہودی ریاست اور ایک فلسطینی ریاست۔

امریکی سفیر: امریکی وفد اقوام متحدہ کی جانب سے اُن بنیادی اصولوں اور متفقہ قراردادوں کی حمایت کرتا ہے

جو ایک تقسیم اور ہجرت کے لئے فراہم کی گئی ہیں۔.

اناونسر: بعدازاں روس نے بھی تقسیم سے متعلق امریکی سفارشات کی حمایت کی،

جبکہ عرب ریاستوں نے انتقامی کارروائیوں کی دھمکی دی، کیونکہ مقدس زمین کے مستقبل کا معاملہ بیچ میں لٹک گیا۔

ٹیکزی مارس: لیکن اسرائیل پہلی ریاست بن گئی، اور انہوں نے کبھی فلسطین کی ریاست بننے نہ دی تاکہ

لہذا، انہوں نے اس امر کو یقینی بنایا کہ

اقوام متحدہ کی قراردادوں پر کبھی بھی عملدرآمد نہ ہوسکے۔

صیہونی تنظیم کے سربراہ کی حیثیت سے، ڈیوڈ بن گوریان نے مئی، میں

"اسرائیل کی سرزمین پر یہودی ریاست کے قیام" کا اعلامیہ جاری کیا۔

اناونسر: مئی میں، ایک نئی یہودی ریاست "اسرائیل" خون میں نہا کر معرض وجود میں آگئی۔

یہودی فوجی دستوں نے عرب افواج کو اپنی ان سلسلہ وار لڑائیوں کے پہلے مرحلہ میں حیفہ کی جانب دھکیل دیا

اور جس کی گونج سالوں تک سنائی دیتی رہی۔ نئی حکومت ڈیوڈ بن گوریان کی سربراہی میں تل ابیب

میں قائم کر دی گئی۔ پس سن ء میں رومی لشکر کے یروشلم کو ڈھانے کے بعد یہ پہلی بار تھا

کہ یہودیوں کو اپنا ایک ملک میسر ہوگیا۔

پادری جمینز: آج بہت سے عیسائی یہ سمجھتے ہیں کہ خداوند ہی اسرائیل کی ریاست کو واپس معرض وجود میں لایا،

اور خداوند نے یہ ایک معجزہ دکھایا ہے ۔ لیکن کیا یہ واقعی خداوند کی مرضی تھا کہ ان لوگوں کو واپس

اسرائیل میں لایا جائے۔ یا یہ اقوام متحدہ کی مرضی تھی؟

پادری اینڈرسن: بائیبل نے بہت واضح طور پر ہمیں ہیبرو میں یہ بتایا ہے کہ جب یہ پہلی بار موسی کے ساتھ

وعدہ کردہ مقدس زمین پر آئے، "تو وہ داخل نہ ہوسکے کیونکہ وہ منکر تھے۔"

پھر سال کے بعد، ان کے بچوں کو، جو کہ خداوند پر ایمان رکھتے تھے، اجازت ہوئی کہ وہ وعدہ کردہ مقدس زمین میں داخل ہوں۔

اس کے بعد، جب انہوں نے دوسرے معبود بنا لئے، تو پھر خداوند نے کیا کیا؟ اس نے انہیں وہاں مقدس زمین سے

نکال کر بے دخل کردیا۔ وہ سالوں کے لئے بیبیلون چلے گئے۔ اور جب انہوں نے اپنے جھوٹے معبودوں کو

چھوڑ کر توبہ کی اور پلٹ آئے، تو پھر انہیں دوبارہ مقدس سرزمین پر لایا گیا۔ پھر جب انہوں نے یسوع مسیح کو

مسترد کر دیا، تو پھر انہیں دوبارہ مقدس سرزمین سے نکال دیا گیا، اس کے بعد میں،

جب وہ سب خداوند یسوع مسیح پر ایمان لائے، تو پھر خداوند انہیں ایک بار پھر وعدہ کی مقدس سرزمین پر لے آیا۔

کیا واقعی ایسا ہی ہوا ہے؟ نہیں!

پادری کولمین: کیا وہ یسوع پر یقین کرتے ہیں؟ دیکھو، اے عیسائیوں، اپنے آپ سے یہ سوال کرو:

کیا اسرائیل میں کوئی تجدید کا عمل ہو رہا ہے؟ کیا لوگ یسوع کو اپنا مسیحا ماننے لگے ہیں؟

جواب یہ ہوگا، نہیں۔ لہذا یہ خداوند نہیں تھا جو اسرائیل کو واپس لایا کیونکہ یہ اب اس پر یقین کرنے لگے ہیں۔

اس نے تو کہا تھا کہ اگر انہوں نے اس سے منہ موڑا اور اپنے لفظوں کی پاسداری نہ کی تو وہ انہیں منتشر کر دیگا۔

اور اس نے ایسا ہی کیا۔ اس نے کہا کہ وہ انہیں واپس لائے گا جب وہ اس پر ایمان لائیں گے۔

وہ اُس پر ایمان نہ لائے۔

پادری اینڈرسن: تو اگر خداوند انہیں واپس نہیں لایا تو کون انہیں واپس لایا ہے؟

یہ دجال کی روح تھی جو انہیں وعدہ کی مقدس سرزمین پر واپس لائی ہے۔

یہ اقوام متحدہ ہی تھا جو انہیں واپس اس مقدس سرزمین پر لایا۔

اناونسر: پس، تاریخ اس طرح رقم ہوئی اور یہودی ریاست اسرائیل کے نام سے وجود میں آگئی۔ لڑائی جھگڑوں میں

حاملہ اور تشدد پر پروان چڑھنے والی ریاست اسرائیل کندن بن کر عالمی افق پر ایک تعمیری آواز بن کر سامنے آئی۔

اس کا پرچم شورش زدہ عالم میں امید کی کرن کی علامت بن گیا۔

پادری اینڈرسن: ڈیوڈ کا اسٹار؟ یہ علامتی نشان کہاں سے آیا؟

رابی ابرامی: کیا ازخود بائیبل میں یہ صریحاً طور پر کبھی نہیں لکھا گیا؟

پادری اینڈرسن: کیا یہ تلمود میں ہے؟

لیڈر شنال: نہیں۔

پادری اینڈرسن: کیا بائیبل میں اس کے بارے میں کوئی اشارہ دیا گیا ہے، یا نہیں؟

رابی وینر: نہیں۔

پادری اینڈرسن: تو کیا تم واقعی نہیں جانتے کہ اصل میں یہ کہاں سے آیا ہے؟

رابی وینر: نہیں۔

رابی مان: تم نے مجھے پکڑ لیا !

پادری اینڈرسن: تو کوئی بھی نہیں جانتا، ہیں نا؟

رابی مان: میں نہیں جانتا۔

پادری اینڈرسن: کیونکہ میں یہ جانتا ہوں کہ اس کو ڈیوڈ کا اسٹار کہتے ہیں۔

کیا اس کا ڈیوڈ سے کوئی تعلق ہے؟

رابی مان: نہیں، میرے خیال سے نہیں ہے۔

رابی ابرامی: لازماً اسے کہیں نہ کہیں تو ہونا چاہیئے۔

مجھے بالکل ٹھیک سے تو یاد نہیں کہ اس کیا تعلق تھا۔

پادری اینڈرسن: مجھے یقین ہے جسے وہ "ڈیوڈ کا اسٹار" کہتے ہیں تو دراصل اس کا مطلب ریمفان کا اسٹار ہے

کیونکہ جب آپ بائیبل پڑھتے ہیں تو، آپ دیکھتے ہیں کہ جب انہوں نے دیگر معبودوں کی پرستش کی تھی،

تو بائیبل ان کا اس طرح ذکر کرتی ہے کہ وہ جنہوں نے اپنے معبود ریمفان کی علامت کا بینر اٹھا رکھا تھا۔

ٹیکزی مارس: تم نے بائیبل کے خداوند کو مسترد کر دیا تھا۔ اور تم نے اپنے لئے خود اپنے خدا جو ریمپفان یا چیئون

کہلایا، اس کی علامت ( کونوں والا ستارہ) کو اٹھا لیا تھا۔ یہ سب مولیخ کے لیے نام تھے،

اس عظیم بال، عظیم آگ کا دیوتا، جو کہ شیطان ہے۔

پال رٹن برگر: بیلزیباب (شیطان)

ٹیکزی مارس: بالکل ٹھیک۔ بیلزیباب۔ اور وہ اس بارے ہکا بکا تھے۔ اب، یہ ستارہ دیوتا کون ہے؟

اگر وہ اپنا قدیم صحیفہ پڑھیں تو انہیں اس کے بارے میں معلوم ہوگا۔ آموس میں، خداوند نے کہا، تم نے اس ستارہ

کو اٹھا لیا، اور اس فعل سے تم نے میرے غضب کو دعوت دی، اور تم نے درحقیقت اس ستارہ کے دیوتا

کے لئے آگ کے ذریعے اپنے بچوں کی قربانی دی۔

انہوں نے اپنے بچوں کو قربان کیا۔ یہودیوں نے ستارہ کے دیوتا کیلئے ایسا کیا۔

پادری اینڈرسن: جب وہ ایک جھوٹے معبود کی عبادت کی، تو انہوں نے ریمپفان کے ستارہ کو بطور ایک

علامتی نشان اپنایا۔ ہم نے کبھی کسی صحیفہ میں "ڈیوڈ کا ستارہ" نہیں دیکھا، لیکن جھوٹے دیوتا ریمپفان کا ستارہ،

تو آج ہم یہ جان گئے کہ وہ حقیقی خداوند کی عبادت نہیں کر رہے کیونکہ بائیبل کہتی ہے،

"جو کوئی فرزند کا انکار کرے، اس کے پاس باپ بھی نہیں: لیکن جو فرزند کا اقرار کرتا ہے، تو

وہ باپ کا بھی اقرار کرتا ہے۔" اگر یہودی فرزند پر یقین نہیں کرتے، تو بائیبل کے مطابق تو باپ

پر بھی یقین نہیں کرتے۔ تو ان کے پاس کیا ہے؟ کوئی اور۔ ایک باطل معبود۔

تو ظاہر ہے کہ وہ اس خداوند کی پرستش نہیں کرتے جس کی ہم عبادت کرتے ہیں۔ کچھ لوگ کہہ سکتے ہیں

"اوہ وہ خدا ہی کی عبادت باپ کے طور پر کرتے ہیں، لیکن بس وہ یسوع کو تسلیم نہیں کرتے،" لیکن بائیبل کی

تعلیمات یہ سکھاتی ہے کہ یہ ناممکن ہے کہ تم باپ کی عبادت کرو مگر فرزند کو تسلیم کئے بغیر؟

ٹیکزی مارس: اگر آپ ماضی میں موسوی دور کے فری ماسونری کی انجمن پر ایک نظر ڈالیں، تو ان کی ایک عظیم علامت

“G” تھی۔ آپ کمپاس کے ستارہ کو دیکھیں، اس کو روایتی ترقی دے کر ڈیوڈ کا ستارہ بنا دیا گیا۔ سچ تو یہ ہے کہ،

تمام موسوی عبادت گاہوں میں ڈیوڈ کا ستارہ پایا جاتا ہے۔ ایسا کیوں ہے؟

ماسونری دراصل یہودیت اور کبالحہ کا مطالعہ ہے۔

اکتوبر ء کا یہودی اخبار ٹرائیبیون، لکھتا ہے، "ماسونری یہودیت کی بنیاد پر ہے۔"

ماسونک اقدار میں سے یہودیت کی تعلیمات کو نکال دو تو، باقی کیا رہ جاتا ہے؟"

ٹیزی مارس: البرٹ پائک نے اپنی کتاب "مورلز اینڈ ڈوگما" میں کہا کہ کبالحہ ہی بنیادی اساس ہے۔

کبالحہ کے بغیر ہم ماسونک تنظیم کی رسومات نہیں پاسکتے۔ لیکن اس دیوتا کو جس کو وہ پوجتے ہیں، ایک

عظیم معمار، مولیخ ہے، ستارہ دیوتا۔ اگر اب کوئی مجھے یہ بتائے

کہ یہودی ازخود یسوع کی بد دعا کے تحت اس عظیم لعنت کے زیر عتاب نہیں آئے۔۔۔ تو یہ وہاں لکھا ہوا ہے۔

پادری جمنیز: جان : میں، یہ بہت دلچسپ ہے کہ یسوع نے یہ کہا کہ : "مجھے معلوم ہے کہ تم ابراہیم کی

اولاد ہو"، تو وہ یہ اعتراف کر رہا ہے کہ وہ طبعی طور پر ابراہیم کی نسل سے ہیں۔

اُس نے کہا، مں جانتا ہوں کہ تم ابراہیم کی نسل سے ہو"، لیکن تم مجھے قتل کرنے کے درپے ہو۔ کیونکہ تمہارے

اندر میرے پیغام کے لئے گنجائش نہیں ہے۔" میں تم کو وہی کچھ بتاتا ہوں جو میں نے اپنے باپ کے یہاں دیکھیں۔

جبکہ تم وہی کچھ سناتے ہو جو تم نے اپنے باپ سے سنا۔ انہوں نے جواب دیتے ہوئے اس سے کہا، ابراہیم ہمارے باپ ہیں۔

یسوع نے جواب دیا، اگر تم ابراہیم کی اولاد ہوتے تو تم اس کے نقش قدم (کام) پر چلتے۔

لہذا یہ بات دلچسپ ہے کہ آیت میں، اس نے انہیں ابراہیم کی نسل سے ہونے کا اعتراف کیا۔

کہ وہ طبعی طور سے ابراہیم کی نسل سے ہیں۔ لیکن پھر آیت نمبر میں وہ سوال کرتا ہے،

وہ کہتا ہے، "اگر تم ابراہیم کے فرزند ہوتے، تو تم ابراہیم کے کام کرتے،" درحقیقت وہ یہ کہہ رہا ہے

کہ وہ ابراہیم کے فرزند نہیں ہیں، جیسا کہ ہم پہلے ہی اس حوالے سے آخری پیرائے میں بات کرچکے ہیں۔

وہ کہتا ہے، "تم اپنے باپ ابلیس سے ہو۔" تو یہ بات بہت دلچسپ ہے کہ یسوع بذات خود یہ بات کہہ رہا ہے

کہ تم طبعی طور پر ابراہیم کی اولاد ہوسکتے ہو اور ابراہیم کی نسل سے ہوسکتے ہو،

لیکن وہ تمہیں ابراہیم کا فرزند نہیں مانتا۔

رابی ابرامی: گوسپل آف جان (یوحنا کی انجیل) باب آیت کے اور پیرائے میں ہے کہ

جہاں وہ یہ کہتا ہے کہ یہودی ابلیس کے فرزند ہیں۔ وہ اسی بات کی تبلیغ کر رہا تھا!

پادری جمنیز: یسوع نے ازخود یہ سکھایا "تم اپنے باپ ابلیس سے ہو، اور اپنے باپ کی خواہشات پر عمل کرنے

کے خواہاں رہتے ہو۔ وہ شروع ہی سے قاتل ہے اور وہ کبھی سچائی پہ قائم نہیں ہوتا،

کیونکہ اس میں سچائی ہے ہی نہیں۔ جب وہ جھوٹ بولتا ہے، تو فطری طور پر ازخود بولتا ہے:

کیونکہ وہ ایک جھوٹ بولنے والا ہے، اور جھوٹ کا باپ ہے۔" اور خداوند یسوع مسیح کے مطابق، وہ اپنے باپ

ابلیس سے ہیں۔ لہذا یسوع کو یقین تھا کہ وہ ابراہیم کی پیروی نہیں کر رہے تھے۔

وہ موسی کی پیروی نہیں کر رہے تھے، وہ نبیوں کی پیروی نہیں کر رہے تھے، وہ خداوند کی پیروی نہیں کر رہے تھے۔

اس نے کہا کہ وہ اپنے باپ ابلیس کی پیروی کر رہے تھے۔

ٹیکزی مارس: مکاشفہ اور میں دلچسپ آیات ہیں ان کے بارے میں ذکر کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ

وہ یہودی ہیں اور نہیں ہیں تو شیطان کے پجاری ہیں۔

پادری اینڈرسن: یہ معلوم کرنا کوئی مشکل کام نہیں کہ "شیطان کے پجاری" کون ہیں، جب آپ یہ بات

سمجھ لیں گے کہ دنیا میں صرف ایک ہی مذہب ایسا ہے جو سنیگاس (مخصوص عبادت گاہ) استعمال کرتا ہے، اور وہ ہے یہودیت۔ یہ بات سمجھنا مشکل نہیں کہ

وہ کون لوگ ہیں اور جب بائیبل ہمیں یہ بتاتی ہے کہ وہ یہ کہتے ہیں کہ وہ یہودی ہیں، لیکن وہ نہیں ہیں۔

دنیا میں ہر کوئی ایسا نہیں کہ جو یہ کہتا پھرے، "میں یہودی ہوں۔" وہ لوگ جو یہودیت پر عمل کرتے

ان کا کہنا ہے کہ وہ یہودی ہیں۔ آپ کہتے ہیں، "اچھا، پاسٹر اینڈرسن، وہی یہی کہتے ہیں کہ وہ یہودی ہیں،

لیکن کیا وہ واقعی ہیں۔" نہیں، کیونکہ آیت رومنز : کہتی ہے، "وہ یہودی نہیں ہیں، جو بظاہر نظر آتے ہیں؛

نہ ہی وہ جو مخطون، جو کہ جسمانی طور پر بظاہر ہیں: لیکن حقیقی یہودی وہ ہے جو باطن میں

یہودی ہے؛ اور حقیقی ختنہ وہ ہے جو دل کا ہے، جو روحانی ہے، اور جو خط میں نہیں ہے؛

جس کی تعریف انسانوں کی نہیں، بلکہ خداوند کی بیان کردہ ہے۔" بائیبل کہتی ہے، "کیونکہ ہم ہی حقیقی ختنہ کے پیروکار ہیں،

جو روح کے ساتھ خداوند کی عبادت کرتے ہیں، اور یسوع مسیح پر فخر کرتے ہیں، اور جسمانی استطاعت پر بھروسہ

نہیں کرتے۔" لہذا خداوند کی نگاہوں میں، وہ یہودی نہیں ہیں، بلکہ وہ شیطان کے پجاری ہیں۔

بائیبل مکاشفہ : کے بیان کے مطابق، "خبردار، میں انہیں شیطان کا پجاری بنا دوں گا، جسے وہ کہتے ہیں کہ

یہودی ہیں، جو کہ وہ نہیں ہیں، لیکن جھوٹ بولتے ہیں؛ خبردار، میں ان کو تیرے قدموں کے سامنے گھٹنے ٹیک کر عبادت کرنے

پر مجبور کر دوں گا، اور انہیں دکھاؤں گا کہ میں صرف تجھ ہی سے پیار کرتا ہوں۔" اب کیوں خداوند کو شیطان کے پجاری بنانے کی ضروت

پڑے گی یہ دکھانے کے لئے کہ خداوند فلاڈیلفیا کے ایک چرچ سے محبت کرتا ہے؟ کیونکہ یہودی یہ سمجھتے

ہیں کہ خداوند صرف اُن ہی سے پیار کرتا ہے۔ وہ یہ نہیں سمجھتے کہ خداوند فلاڈیلفیا پر غیر قوموں سے پیار کرتا ہے، اور

اسی لئے خداوند نے فرمایا، "میں شیطان کے پجاریوں کو یہ دکھلانے جا رہا ہوں کہ میں نے صرف تم سے پیار

کرتا ہوں۔" خداوند زمین کے تمام بچوں سے پیار کرتا ہے، سرخ ہو یا پیلا، سیاہ ہو یا سفید،

اس کی نگاہ میں وہ انتہائی قیمتی ہیں۔

یوحنّا : میں، بائیبل ہمیں دجال کیا ہے کے بارے میں یوں اطلاع دیتی ہے:

"کون جھوٹا ہے، وہ جو یسوع کے مسیح ہونے کا انکار کرتا ہے؟ وہ دجال ہے،

وہ جو باپ اور فرزند کا انکار کرتا ہے۔"

پادری اینڈرسن: اس بات پر یقین کرنے کے لئے کہ عیسی مسیح نہیں ہے،

آپ کو لازماً یہ ماننا پڑے گا کہ کوئی تو مسیح ہے، اور یہ یسوع نہیں ہے۔

پادری جمنیز : یوحنّا کی آیت ہمیں یہ بتاتی ہے کہ لفظ "مسیحا" سے مراد "مسیح" ہی ہے۔ کوئیں پر موجود عورت

نے اُس سے کہا "میں جانتی ہوں کہ مسیحا آ رہا ہے، جو مسیح کہلائے گا،" تو لہذا ہمیں اس تعریف سے یہ معلوم ہوا

کہ لفظ "کرائسٹ" کا مطلب "مسیحا" ہے. تو، یوحنا : میں جب یہ ارشاد ہوتا ہے، "کون جھوٹا ہے

لیکن وہی ہے جو یسوع کے مسیحا ہونے کا انکار کرتا ہے،" اصل میں کیا کہا جا رہا ہے وہ یہ کہ، "کون جھوٹا ہے جو

یسوع کے مسیح ہونے کا انکار کرتا ہے۔" وہ کونسے لوگوں کا گروہ ہے جو کسی مسیحا کے ہونے پر تو یقین کرتا ہے،

لیکن یسوع ہی وہ مسیحا ہے پر یقین نہیں کرتا؟ ایک بار پھر، وہ لوگ یہودی ہی ہیں۔

پادری اینڈرسن: مجھے موقع دیں کہ اگر میں اس کی بالکل درست وضاحت کرسکوں۔

بنیادی طور پر یہودی یسوع پر یقین رکھتے ہیں۔۔۔ لیکن ظاہر ہے کہ آپ اس کے مسیحا ہونے پر یقین نہیں کرتے،

لیکن تو کیا آپ کے خیال میں وہ جھوٹے مسیحا کی طویل قطار میں محض ایک اور کا اضافہ تھا؟

رابی مان: جی ہاں، اگر یہ دعوی کیا جاتا ہے کہ وہ ہی مسیحا تھا، تو پھر وہ ایک جھوٹا مسیحا تھا۔

رابی ابرامی: یسوع نے کبھی یہ نہیں کہا کہ "میں ہی مسیحا ہوں۔"

رابی مان: یہودی لوگ مسیح میں دلچسپی لیتے رہے رہتے۔ وہ مسیح کے لیے انتظار کر رہے ہیں۔

وہ مسیحا کو پانا چاہتے ہیں، لہذا اگر اُس میں مسیحا کی کوئی ایک حقیقی نشانی ہوتی، تو وہ اس میں دلچسپی لینے

لگتے۔ لیکن اُس کے صرف بارہ ہی تابعین تھے۔ جو کہ بہت زیادہ نہیں ہے۔

اور یہاں آپ تمام یہودی علماء اور یہودیوں کے ملک کے حوالے سے بات کر رہے ہیں۔

وہ اس پر حاوی نہ ہوسکے۔

پادری اینڈرسن: وہ اس پر یقین نہیں کرتے تھے۔

رابی مان: بالکل بھی نہیں! ناکام مسیحا کی اختراع عیسائیوں کی ایجاد ہے۔ چلو اگر وہ

ناکام ہوا بھی تھا، تو پھر بھی مسیحا ہی تھا۔ ہم نے اسے رد کیا۔ اگر تم ناکام ہوئے، تو تم مسیحا نہیں ہوسکتے۔

پادری اینڈرسن: وہ اب تک ایک اور مسیحا کے ظاہر ہونے کا انتظار کر رہے ہیں، اور ہم جانتے ہیں کہ وہ دوسرا

آنے والا مسیحا دراصل دجال ہے۔ ایک صیہونی مسیحا دیکھنے میں کیسا ہوگا؟

رابی مان: ایک ایسا طاقتور بادشاہ جو زمین پر خیر خواہی اور امن و آشتی قائم کر دے گا۔

تمہیں امن قائم کرنے کے قابل ہونا ہوگا۔

پادری اینڈرسن: عالمی امن؟

رابی ابرامی: جی عالمی امن۔

رابی مان: جب اصل مسیحا ایک ایسے ڈرامائی انداز میں اپنا ظہور فرمائے گا کہ

وہ کسی بھی طرح جھٹلایا نہ جاسکے، تو پھر ہر ایک تسلیم کرے گا کہ وہ ہی حقیقی مسیحا ہے۔

پادری اینڈرسن: عالمگیر سطح پر؟

رابی مان: جی عالمگیر سطح پر۔ یہاں تک کہ غیر-یہودی بھی کیونکہ وہ سب تمام مسیحا کے منتظر ہیں۔

پادری اینڈرسن: تو تم یہ کہہ رہے ہو کہ جب مسیحا آئیں گے،

تو تمام دنیا اس پر یقین کر لے گی؟

رابی مان: جی ہاں، ساری دنیا کیونکہ اس کا مقصد تمام دنیا کو مناسب رسموں کے ساتھ لے کر چلنا ہوگا

تاکہ مناسب طور سے اس کا مشاہدہ کیا جائے۔ لہذا اس سے سیکھنے کے لیے تمام اقوام عالم قطار در قطار یروشلم کا رخ کریں گی۔

یہی عالمی امن کا نقطہ آغاز ہوگا۔ وہ ایک غیر معمولی کرشماتی مسیحا ہوگا۔

عظیم معلومات اور ابلاغی قوتوں کا حامل ہوگا۔ وہ ایک عظیم جنگی ماہر بھی ہوگا۔

اور وہ یہودیوں کا محافظ ہوگا،

اور وہ ان کے تمام دشمنوں کو مستقل طور پر شکست فاش کر دے گا۔

پاسٹر رومیرو: اگر تم غور سے سنو کہ یہودی اپنے مسیحا کے خدوخال کو جسطرح بیان کرتے ہیں، تو وہ من و عن

وہی تصویر کشی کرتے ہیں جو بائیبل دجال کے بارے میں کرتی ہے۔ وہ پورے عالم ارض کو فتح کرے گا۔

وہ جنگ کے ذریعہ امن لائے گا۔

پادری اینڈرسن: وہ دنیا کے تمام مذاہب کی جانب سے تسلیم کیا جائے گا۔ وہ عالمی امن لائے گا۔

وہ ہم سب کو متحد کر دے گا۔ ہم سب کو.

ٹیکزی مارس: بہت سے عیسائی انمول ہیں، اور وہی یہی نہیں جانتے کہ وہ کیا کر رہے ہیں۔

میں فلوریڈا میں منعقد رسالت پر مبنی ایک کانفرنس میں شریک تھا، اور ایک خاتون میرے پاس آئی، وہ اسٹار آف ڈیوڈ کا لاکٹ

پہنے ہوئی تھی۔ میں نے اس سے پوچھا کہ اس نے وہ کیوں پہنا ہوا ہے، تو وہ بولی، "اوہ، یہ تو بہت اہم ہے کہ

ہم اسرائیل کی حمایت کا اظہار کریں۔" میں نے کہا، "تم اسرائیل کیلئے اپنی حمایت کا اظہار

کیسے کرتی ہو۔" وہ بولی، "میں ہر ماہ ٹیمپل ماؤنٹ فاؤنڈیشن کو بطور امداد رقم دیتی ہوں۔"

ویسے تو وہ ایک یہودی گروپ ہے۔ اور پھر میں نے کہا "کیا تمہیں نہیں معلوم کہ تھیسلنوئینز کی کہاوتیں ہیں کہ دجال

اسی ٹیمپل میں داخل ہوگا اور دیگر کسی بھی خدا کے مقابلے میں خود کو برتر و عظیم ترین خدا ہونے کا اعلان

کرے گا؟" تو وہ بولی، "بہرحال، میں تو یہ سمجھتی ہوں کہ میں بائیبل کی پیشن گوئیاں پوری ہونے میں مدد کر رہی

ہوں۔" میں نے کہا، " تم کر رہی ہو!" تم دجال کی مدد کر رہی ہو کہ وہ آئے! اور ایسا کون کرنا چاہے گا!"

رابی جیریمی گمپل: جب ایک آدمی آئے گا، اور اسرائیل کے لیے جنگیں لڑے گا، دشمنوں کو شکست دے گا،

ٹیمپل بنائے گا، دنیا میں امن قائم کرے گا - اب وہ راہنما جب یہ کرلے گا، تو ہم سب اس بادشاہ کے

سامنے احترام سے جھک جائیں گے۔ کیا تم میرا مطلب سمجھ رہے ہو؟ وہ جو کوئی بھی ہو۔ اس کے متعلق تمہارا جو بھی نظریہ ہو – تم کہتے ہو

وہ دوسری آمد ہے۔ ٹھیک ہے۔ ہم کہتے ہیں کہ یہ پہلی آمد ہے۔

اینڈرسن پادری: دیکھو، یہودی دجال کو اپنا مسیحا قبول کرنے کے لئے بالکل تیار ہیں،

اس کے باوجود کہ عیسائیوں کو یہ سکھایا جا رہا ہے کہ، آخری وقت آنے پر، تمام تر یہودی یسوع مسیح پر ایمان

لے آئیں گے۔ ویسے، یہ بات سمجھنے کے لئے بہت ذہین ہونا ضروری نہیں کہ شیطان یہاں کیا کر رہا ہے۔

جب یہودی دجال کو اپنا مسیحا قبول کریں گے، تو تمام مرتد عیسائی اشارہ کرتے ہوئے

کہہ اٹھے گے "وہ دیکھو، یہ ہے یسوع مسیح کی دوسری آمد!

دیکھا تم نے، سب یہودی اس پر یقین رکھتے ہیں!" دجال کے ساتھ شیطان کا مقصد کیا ہے؟

لوگوں کو یہ یقین دلایا جائے کہ یہ یسوع مسیح کی دوسری آمد ہے۔ اور اسی طرح کی دیگر جھوٹی خرافات پر مبنی

عقائد پھیلائے جائیں، یہی اس کی اساس ہے کہ ایک صحیفہ کے سیاق و سباق کو بالکل باہر کر دیا جائے۔

وہ رومن کے بالکل آخری حصہ کو لیں گے اور رومن کے آغاز کو صریحاً بالکل نظر انداز کردیں گے،

اور وہ اپنے مطلب کی بات پر براہ راست سیدھے آیت کے آخر پر جائیں گے، "اور تمام اسرائیل نجات پائے گا،"

اور کہیں گے "دیکھا، وہ رہا بالکل سامنے! اس آخری دور میں اسرائیل میں موجود ہر کوئی نجات پا جائے گا۔

وہ یسوع پر یقین کرنے جا رہے ہیں! " وہ یہ بھول رہے ہوں گے کہ بائیبل کی رومن ہمیں یہ

بتاتے ہوئے ختم ہوتی ہے کہ "وہ سب حقیقی اسرائیلی نہیں جو محض اسرائیلی قوم سے ہیں۔" طبعی نسلیں حقیقی

اسرائیلی نہیں ہیں! اس نے کہا، "وہ یہودی نہیں جو محض اپنے ظاہر سے یہودی ہے۔"

یہودی وہی ہے جو اپنے باطن سے یہودی ہے۔" یہ اُن کے لیے ہے جو ہم میں سے یسوع مسیح پر ایمان رکھتے ہیں اسرائیلی ہیں۔

ایک غیر محفوظ شخص کو دیکھ کر تم کیسے کہہ سکتے ہو کہ "یہ اسرائیلی ہیں" جبکہ بائیبل کا بیان ہے،

"تمام اسرائیلی نجات پائیں گے"، اس سے تو مجھے یہ بات معلوم ہوئی کہ وہ جو اسرائیل میں نہیں ہے نجات نہیں پائے گا۔

وہ تو دجال ہے، یسوع مسیح نہیں، جو ان یہودیوں کو منکر عیسائیوں کے ساتھ اور دنیا کے دیگر مذاہب کے

لوگوں کو متحد کر دے گا۔

جبکہ یہودیوں کے دجال کے لئے، دنیا کے تمام مذاہب کو یکجا کرنے کے لئے، شیطان کو لازماً تمام عیسائیت

کے مرکزی پیروکاروں کو گمراہ کر کے یہ دیکھانا ہوگا کہ یہودی دراصل ان کے ہم عقیدہ مومن ہیں، باوجود ان کے

یسوع مسیح کو مسترد اور توہین رسالت کرنے کے۔ ٹیلی ایونجیلسٹ، جیسا کہ جان ہیگی کے مطابق،

جدید صحیفہ کی صریح واضح تعلیمات کو نظرانداز کردو اور جینیسز :- میں ابراہیم سے باندھے گئے وعدوں پر عملدرآمد کرو،

جدید دور کے لیے، یسوع-مسترد کرتا ہوا اسرائیل۔ جو کوئی بائیبل کے نقطہ نظر سے دیکھے تو وہ یہودی ہیں جو

خداوند کے اب چنیدہ لوگ نہیں ، یہی وہ اینٹی-سیمائٹ بطور(یہود-مخالف) میڈیا کی چھاپ ہے۔

جان ہیگی: اسرائیل کی لڑائی ہماری لڑاری ہے! ہم ایک ہیں! ہم متحد ہیں! ہمیں حوصلہ شکن نہیں کیا جائے گا!

ہم شکست نہیں دی جاسکے گی! اور ہمیں خوفزدہ بھی نہیں کیا جاسکے گا! ہم چین سے نہیں بیٹھیں گے! ہم خاموش بھی نہیں رہیں گے!

ہم دنیا کے یہود-مخالفوں کے لئے بدترین ڈراؤنا خواب ہیں، اور فتح بالآخر ہماری ہی ہوگی!

ٹیڈ کروز: اگر تم اسرائیل اور یہودیوں کے ساتھ نہیں کھڑے ہوگے، تو میں تمہارے ساتھ نہیں کھڑا ہوں گا۔

آپ کا شکریہ، اور تم پر خدا کی سلامتی ہو۔

یول اوسٹین: ہم اسرائیل کے لوگوں کے ساتھ کھڑے ہیں۔

رابرٹ جیفریز: میں اپنے ساتھ منسلک ہونے کی دعوت دیتا ہوں آپ کو، ہر ایک عیسائی کو، اور ہر ایک

یہودی کو، اور ہر ایک آزادی-پسند امریکی کو تاکہ ، ہم مل کر امریکی صدر اور کانگریس سے یہ مطالبہ کریں

کہ ISIS اور بنیاد پرست اسلام کے فتنہ کو دنیا کے نقشہ سے مٹانے کے لئے جو کچھ بھی ضروری ہو اقدامات کریں۔

اب یہ وقت عمل کرنے کا ہے۔

خاتون مبلغ : "میں اُن کو بخشش عطا کروں گی جو تمہیں تمھیں بخشش عطا کریں گے، اور انہیں لعنت کروں گی جو تمہیں لعنت کریں گے۔"

خاتون مبلغ : تم اسرائیل کے دشمن تو نہیں بننا چاہو گے۔

خاتون مبلغ : "اور اس دنیا کے تمام خاندانوں پر بخششیں ہوں "

خاتون مبلغ : بے شک، آمین۔

TV مبلغ : تم یا تو اس کے حلیف ہو یا پھر اس کے مخالف۔ تم دونوں میں سے کوئی ایک ہو۔

جان ہیگی: جو انسان، چرچ، اور قوم اسرائیل کی ریاست کو اور یہودیوں کو بخشیں گے،

اُن پر بے شمار بخششیں نازل ہوں گی۔

بینی ھن: اسرائیل کو بخشنے کا مطلب صرف یہی نہیں کہ یہ کہیں کہ "ٹھیک ہے، میں نے تمہیں بخشا۔"

بلکہ ضرورت اس کی ہے کہ اس ضرورت گھڑی میں تمہیں ان کے ساتھ کھڑا ہونا ہوگا۔

پادری اینڈرسن: بے شک باب جان - میں بائیبل کہتی ہے کہ

"جو کوئی تجاوز کرتا ہے، اور پیروی نہیں کرتا یسوع کی تعلیمات پر، تو اس کے پاس خداوند نہیں ہے۔

وہ جو یسوع کی تعلیمات کی پیروی کرتا ہے، تو اس کے پاس باپ اور فرزند دونوں ہیں۔

اگر کوئی تمہارے پاس آ کر یہ تعلیم نہ لائے، تو اس کو اپنے گھر میں نہ لانا نہ ہی اس سے میل ملاپ رکھنا،

اور نہ ہی خداوند کی قدرت پر اس سے بحث کرنا: جو اس کے ساتھ خداوند کی قدرت پر اعتراض کرے وہ اس کے برے کاموں میں اس کا حصہ دار ہے۔

پادری اینڈرسن: اور تم کیا کر رہے ہوتے ہو جب تم کسی خدا کی سلامتی بھیجتے ہو؟ تم انہیں بخش رہے ہوتے ہو۔

لہذا آج کی ایوینجیکل عیسائیت یہ کہہ رہی ہے کہ ہم کو لازماً اسرائیل کو بخشنا چاہیئے اگر ہم خداوند سے بخشش

کے خواہاں ہیں، اب تک جان ہمیں یہ تعلیمات دیتی رہی ہے کہ اگر ہم ان کو بخشیں گے جو خداوند کے فرزند کو

جھٹلاتے ہیں، تو ہم ان کے برے اعمال کے حصہ دار بنتے ہیں۔

ٹیکزی مارس: ایوینجیلکلز، بلاشبہ، امریکی عیسائیت کا ایک بڑا طبقہ ہے - ساؤتھرن بیبٹسٹ،

پینٹے کوسٹلس، دی اسیبلیز آف گاڈ – یہ سب بہت پُرجوش و سرگرم گروپس ہیں۔

اور یہ بنیادی طور پر بہت اسرائیل-نواز اور صیہونیت نواز رہے ہیں۔ ان میں سے بہت سو نے تبدیلی مذہب کے

امکانات کے در ہی یہ کہتے ہوئے بند کر دیئے کہ " اوہ تم کو یسوع کی ضرورت نہیں۔ تم تو یہودی ہو۔

ہیوسٹن کرانیکل میں، جان ہیگی کا حوالہ دیا گیا یہ کہتے ہوئے کہ:

"میں یہودی لوگوں کو عیسائی عقیدہ پر تبدیل کرنے کی کوشش نہیں کر رہا ہوں۔ اس میں کچھ ہے ہی نہیں۔

"دی نائیٹ ٹو آنر اسرائیل" نے ہی کام تمام کر دیا۔ سچ تو یہ ہے کہ، یہودیوں کو تبدیل کرنے کی کوشش

"وقت کا ضیاع ہے"۔ جس یہودی شخص کی جڑیں یہودیت میں ہوں وہ کبھی بھی عیسائیت کو قبول نہیں کرے گا۔

باقی سب کے مقابلے میں، چاہے بدھ مت ہوں یا باھائی ہوں، اُن کو یسوع پر یقین کرنے کی ضرورت ہوگی، نہ کہ یہودی کو

یہودیوں نے پہلے ہی خداوند کے ساتھ عہد کر رکھا ہے کہ وہ کبھی بھی عیسائیت پر تبدیل نہیں ہوں گے۔"

پادری اینڈرسن: اور واقعی اس سے زیادہ یہود-مخالف بات ہو ہی نہیں سکتی۔

"یہودیوں کو ایوینجیلیت پر نہ لاؤ" یہ یہودیوں کو جہنم وارد کرنے کے مترادف ہے۔ بائیبل کہتی ہے:

"جو فرزند پر ایمان لاتا ہے ہمیشہ کی زندگی پاتا ہے: لیکن جو فرزند کو ہی نہیں مانتا وہ زندگی کو نہ دیکھے گا؛

بلکہ وہ خداوند کے زیرِ عتاب آجائے گا۔

پادری اینڈرسن: اس کے باوجود جان ہیگی یہ سیکھاتا ہے کہ یہودی پہلے سے ہی بہشتی ہیں اور ہمیں یہودیوں کو

ایونجیلائز کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔

پادری فرسی: ٹھیک ہے، جان ہیگی بالکل غلط ہے۔ بائیبل ہمیں بتاتی ہے کہ ہم ہار میں جیتیں گے،

اور ہمیں انجیل کی تبلیغ ہر ذی روح کو کرنی ہے۔ اب جیسا کہ میں نے پہلے بھی اس بارے میں ذکر کیا تھا

سی آئی اسکوفیلڈ طلاق شدہ اور دوبارہ شادی شدہ تھا۔ کیا یہ دلچسپ نہیں کہ جان ہیگی کی بھی یہی کہانی ہے

اپنی بیوی کو طلاق دی، اور دوسری عورت سے شادی کری، اور ایک بڑے پینٹاکوسٹل چرچ کی قیادت کرتا رہا ہے،

اور اسرائیل کی پوجا کرنے کی حد تک حمایت کی تاکید کرتا ہے۔

جان ہیگی: آزاد یقیناً آزاد ہے! انہیں خداوند کے گھر سے مصروفیت اور خوشخبری دے دو۔

اناونسر: سان انٹونیو ٹیکساس کے چرچ سے وابستہ , لوگ سے لیکر ملیئن گھرانوں کو اس نے

کہا ہے کہ وہ اس کے ہفتہ وار ریڈیو اور ٹیلیویژن نشریات کا چینل دیکھتے رہیں، جان ہیگی نے تمام دنیا میں

ایونجیلیکل پیروکاروں کو اپنی گاسپل آف اسرائیل سنانے کے لیے وابستگان کی ایک کثیر جماعت تیار کرلی ہے۔

CUFI کے ایک رہنما کے طور پر، اس کی طاقت میں منبر سے سیاست تک کافی اضافہ ہوا ہے۔

پادری اینڈرسن: جان ہیگی ایک گستاخ اور توہین آمیز استاد ہے جو یہ سیکھاتا ہے کہ یسوع مسیح اس دنیا میں

مسیحا بننے کے لئے نہیں آیا تھا۔

جان ہیگی: "اسرائیل کے دفاع میں" میں عیسائی الہیات کو ہلا کر رکھ دوں گی۔ یہ بات صیحفوں سے ثابت ہے کہ

نہ صرف یہ کہ بحیثیت ایک اجتماعی قوم یہودی لوگوں نے یسوع کو بطور مسیحا مسترد نہیں کیا۔ بلکہ کہ یہ

ثابت ہوگا کہ یسوع زمین پر مسیحا بننے کے لئے نہیں آیا۔ یہ بھی ثابت ہوگا کہ یسوع کو ایک سرکش باغی قرار دے

کر اسے ھلاک کرنا کہ اس کا زندہ رہنا انتہائی خطرناک ہے، روم کے ایک بڑے مبلغ اور ہیراڈ کے مابین ایک مکار سازش تھی۔

جب سے یسوع نے اپنے قول و فعل سے مسیحت کا دعوی

کرنے سے انکار کیا ہے، تو یہودیوں کو، مسترد کئے جانے کا مورد الزام کس طرح ٹھہرایا جا سکتا ہے جو کہ انہوں نے کبھی کیا ہی نہیں؟ ان دھچکہ آمیز انکشافات کو

"ان ڈیفینس آف اسرائیل" میں پڑھیں۔

اناونسر: پاسٹر جان ہیگی کی اس دوسری کتاب کا مقصد دنیا کے تمام عیسائیوں کے مابین بحث و مباحثہ

کی ایک تحریک پیدا کرنا تھی۔

پاسٹر فرسی: جان ہیگی نہ تو آزاد و خود مختار بیپٹیسٹ ہے، اور نہ ہی وہ کنگ جیمز بائیبل کا ماننے والا ہے،

تو بہت سے وہ لوگ جو اس دستاویزی فلم کو دیکھیں گے، بولیں گے، "ٹھیک ہے، یہ ہمارے لوگ نہیں ہیں"

ویسے، سام گِپ کے بارے میں کیا خیال ہے، جو ابھی ایک ہی سال قبل ایڈاھو کے ایک چرچ میں تبلیغ کر رہا ہے

(اور میں اسے تقریباً لفظ بہ لفظ دھراؤں گا)، "تمہیں معلوم ہے میں نے کبھی یسوع کو نہیں پکارا؟

میں نے کبھی اسے اپنا مسیحا مانا ہی نہیں۔"

سام گِپ: کیا تمہیں معلوم ہے جو میں نے یسوع کو کبھی نہیں مانا؟ میں نے اسے کبھی بھی اپنا مسیحا نہی کہا۔ کیا تم

جانتے ہو کیوں؟ تم کہو گے "ٹھیک ہے، وہی ہی مسیحا ہے۔" جبتکہ تم ایک یہودی نہیں ہوجاتے،

وہ تمہارا مسیحا نہیں ہے! کیا تم کافروں میں سے ہو؟ ہم سے کبھی بھی کسی مسیحا کا وعدہ نہیں کیا گیا۔"

پادری فرسی: مجھے افسوس ہے، لیکن سام گِپ غلط ہے،

اور ہوسکتا ہے کہ وہ خود مختار بیبٹسٹس کے درمیان مقبول ہو،

لیکن یہ غلط ہے، چاہے وہ سام گِپ ہو یا پیٹر روکمین، یا جو کوئی بھی ہو۔

خداوند کا کلام خداوند کا کلام ہے، اور ہم اس کی اجازت نہیں دیں گے، چاہے وہ اسکوفیلڈ ہو، یا جان ہیگی،

یا ہمارا کوئی بھی پسندیدہ مبلغ، یا ہمارا پسندیدہ پروفیسر یا ٹیچر، کہ وہ اصل الفاظ جو کچھ کہتے ہیں،

اس پر وہ اثرانداز ہوں۔ یسوع مسیح سب کا مسیحا ہے۔ وہ میرا مسیح ہے. وہ ہر ایک فرد کا مسیحا ہے۔

ہیگی ہیوسٹن کرانیکل کے آرٹیکل میں کہتا پھرتا ہے، "بہت سے عیسائی معلم یہود-مخالف ہیں کیونکہ

وہ کہتے ہیں کہ یہودیوں کے ساتہ کیا گیا عہدنامہ ناپید ہوچکا ہے۔ اور یہودیوں کو عیسائیت سے تبدیل کر دیا گیا تھا۔

اور یہ کہ اسرائیل امریکی فوج اور حمایت کا حقدار نہیں ہے۔"

نہ صرف یہ کہ صہیونی عیسائی ہیگی کی اس تعلیم کہ عیسائیوں کو اسرائیل کی حمایت کرنا چاہیے،

بلکہ وہ یہ مطالبہ بھی کرتے ہیں کہ امریکی حکومت اسرائیل کی فوجی اور مالی امداد بھی کرے، اور چونکہ

ایوینجلیکل عیسائی عوام ووٹنگ کا ایک بڑا حصہ ہیں، سیاستدان اپنا یہ فریضہ سمجھ کر اسرائیل کا دورہ کرنے جاتے ہیں

تاکہ اسرائیل کے لیے، یہودیوں کی 'دیوار نوحہ' پر حاضر اور یہود کے خداوند کے سامنے دعا کرتے نظر آئیں۔

MSNBC اناونسر : سماجی طور پر یہاں بہت سے قدامت پسند، ایوینجلیکل، ریپبلیکن ووٹرز ہیں

جو اس مسئلہ کی بہت زیادہ پرواہ کرتے ہیں، اور اگر وہ یہ دیکھتے ہیں کہ ٹیڈکروز جو کہ فاکس نیوز پر نمودار ہوتا

ہے، اور کہتا ہے کہ "میں % فیصد اسرائیل کے ساتھ ہوں۔" جب وہ یہ سب ہوتا دیکھیں گے تو بہت سے قدامت

پسند ووٹرز یہی کہیں گے کہ "ارے، یہ کروز تو میری سوچ سے بھی بڑھ کر بہتر نکلا!"

MSNBC اناونسر : حقیقت میں، اسرائیل کی اس تقریب کے لئے انہوں نے عیسائیوں کو متحد کر لیا تھا، جو کہ

ایوینجلیکل عیسائیوں کی ایک تنظیم ہے، اور بہت ہی زیادہ اسرائیل-نواز ہے۔ یہ محض ایک امیج ہے

- میرے خیال میں ہمارے پاس یہ ہے – رانڈ پال ان کے ساتھ عبادت کر رہا ہے۔

وہ رہا وہاں، وہ CUFI لوگوں کے ساتھ عبادت کر رہا ہے۔

ٹیڈ کروز: مجھے یہ کہنے دو، جو اسرائیل سے نفرت کرتے ہیں وہ امریکہ سے نفرت کرتے ہیں، اور جو

یہودیوں سے نفرت کرتے ہیں وہ عیسائیوں سے بھی نفرت کرتے ہیں۔

جم اسٹالے: تو گویا اسرائیل کی مخالفت خداوند کی مخالفت ہے، اور مجھے اس کی کوئی پرواہ نہیں کہ وہ کس پر

ایمان رکھتے ہیں اور روحانی سطح پر وہ کس مقام پر ہیں کیونکہ یہ میرا مسئلہ نہیں ہے۔ مجھے اُس کی پشت پناہی

حاصل ہے، اور اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ وہ کیا کرتا ہے اور وہ کہاں پر ہے۔ جب تک وہ یاویح کے نام سے

ابراہیم کے خداوند، اسحاق اور یعقوب کو پکارتا رہے گا، وہ میرا بھائی ہوگا۔

رابی جریمائے گمپل: میرے خیال میں اب یہ ہونے لگا ہے کہ، جتنا بائیبیکل کرسچینیٹی کی جانب ہو رہا ہے،

اس سے زیادہ یہودی عیسائیت کی جانب بڑھ رہا ہے، اور ہمارے درمیان فرق صرف اتنا ہے – جیسا کہ، "اوہ، وہ تو عیسائی ہیں؛

اور وہ تو یہودی ہیں،" جو کہ بالکل اس طرح ہوجائے گا کہ، "اوہ وہ ایک طرح سے ہمارے ہی بھائی ہیں!"

بنجمن نیٹنیاھو: امریکی عوام اور امریکی صدور ہیری ٹرومین سے بارک اوباما تک، اسرائیل کے لیے

سب کی جانب سے حمایت اور معاونت کا شکرگزار ہے۔

براک اوباما: حقیقت میں، مجھے یہ کہنے پر فخر ہے کہ کسی بھی امریکی انتظامیہ نے اسرائیل کی تحفیظ و

سلامتی کے لیے اتنی زیادہ حمایت اور معاونت نہ کی ہوگی جتنی ہم نے کی ہے۔ بالکل نہیں! کسی کو بھی اس کے برعکس کچھ کہنے کا موقع ہی نہ دو!

یہ ایک حقیقت ہے!

مٹ رومنی: ہم ازخود اسرائیل کے استحقاق دفاع کو تسلیم کرتے ہیں،

اور امریکہ کے لیے یہ وہ حق ہے جو امریکہ کو آپ کے

ساتھ کھڑا کرتا ہے۔ لہذا امریکہ کے لیے یہی وقت ہے کہ سینیٹر جوزف لائیبرمین کے لفظوں کی پذیرائی کرے

اور ایران کے خلاف پیشگی فوج کشی کو زیر غور لائے تاکہ اسرائیل پر نیکولیئر ہالوکاسٹ اور امریکہ

پر ایٹمی حملہ کرنے سے ایران کو باز رکھا جاسکے۔

پادری اینڈرسن: کرانیکل میں ہے، کہ ایک خدائی فوجدار حکمران جوزا فاتھ کے نام سے آئے گا اور اسرائیل

کی فوجی امداد کرے گا۔ یہاں خداوند اسے آیت میں: یہ بتاتا ہے

"اور حنانی کا بیٹا یاہو اُس سے ملنے باہر آیا، اور بادشاہ یہوسفط سے کہا، "تم نے بُرے لوگوں

کی مدد کیوں کی؟ اور تم ان بے دین لوگوں سے کیوں محبت کرتے ہو جو خداوند سے نفرت کرتے ہیں؟

اسی وجہ سے خداوند تم سے ناراض ہے۔"

پادری اینڈرسن: تو آج اب اگر ہم سے یہ کہا جاتا ہے کہ اگر ہم اسرائیل کی حمایت کریں گے، تو کیونکہ جینیسز

کے مطابق، خداوند ہم پر بخششیں نازل کرے گا، جبکہ حقیقت میں بائیبل یہ تعلیم دیتی ہے کہ

اگر ہم کسی لادین اور بدکار قوم جیسے اسرائیل کی مدد کریں گے، تو ہم پر خداوند کا قحر نازل ہوگا۔

پادری فیلنائس: ہم بائیبل پر ایمان رکھنے والے عیسائیوں کو اسرائیل جیسے ملک کی حمایت کرنے کی کیا ضرورت ہے

جبکہ اسرائیل وہ قوم ہے جو کسی عیسائی کو بھی اپنے ملک میں ہجرت کرنے کی اجازت نہیں دیتے۔ اگر آپ

اسرائیل میں جا کر بسنا چاہیں، تو آپ کو یسوع مسیح کے نام کو ترک کرنا ہوگا۔

پادری اینڈرسن: اب تک اگر کسی کو بھی آرتھوڈاکس یہودیت اپنانے کے لیے یا واپسی کا اختیار چاہے،

تو انہیں لازماً عیسائیت کو ترک کرنا پڑتا ہے، مثال کے طور پر۔

رہنما شنال: وہ کرتے ہیں۔

رابی ابرامی: آپ بیک وقت ایک عیسائی اور ایک یہودی نہیں ہوسکتے۔ کوئی ایک یا دیگر ہوسکتے ہیں۔

رہنما شنال: تو اسرائیل کی جدید ریاست کے مطابق، کسی بھی فرد کو اپنی سابقہ مذہبی وابستگی کو ترک کرنا پڑتا ہے،

اور متعدد کئی رسومات جن کو خصوصی طور پر سابقہ مذہبی واسبتگی سے پاک کرنے کے لئے تیار اور رائج

کیا گیا ہے، ان کو لازمی اختیار کرنا پڑتا ہے۔

پادری اینڈرسن: تو پھر جو کوئی فی الوقت یہودی نہیں ہے تو وہ محض کسی خودکار دعوت پر

اسرائیل ہجرت نہیں کرسکتا؟

رہنما شنال: ایک شہری کی حیثیت سے نہیں۔

پادری اینڈرسن: تو اسرائیل میں ہجرت کرنے کے لیے، انہیں اپنی عیسائیت کو قطعی ترک کرنا پڑے گا

تاکہ وہ ...

رہنما شنال: ایک شہری بن سکیں،

اور انہیں ایک آرتھوڈوکس رابی کے زیر اہتمام اپنے مذہب کی تبدیلی کرانا ہوگی۔

پادری فیلنائس: میں ذاتی طور پر ایک ایسے شخص کو جانتا ہوں جو اس یقین کے ساتھ اسرائیل گیا، کہ اسرائیل

خداوند کی وعدہ کردہ ایک مقدس سرزمین ہے، اور یہودی خداوند کے چنیدہ لوگ ہیں، اور وہ اپنے دل میں اس عقیدت

کے ساتھ وہاں گئے، تاکہ وہاں اُن پر وہ گواہ بنیں اور انہیں یسوع کے بارے میں بتائیں،

لیکن اسرائیل میں ان نقوش پر چلنا غیر قانونی ہے۔ نہ صرف یہ کہ پولیس والے آئیں گے اور ہراساں

کریں گے، یہاں تک کہ گرفتار یا ملک بدر کئے جانے کے خطرے میں پڑ جائیں گے۔ بائیبل جب ہمیں یہ حق بیان

کرتی ہے کہ وہ گوسپل (انجیل) کے دشمن ہیں۔ رومنز : کے مطابق

گوسپل – انجیل کے اعتبار سے وہ تہمارے لئے خدا کے دشمن تھے، مگر جہاں تک خداوند کی طرف سے ان کے منتخب ہونے کا تعلق ہے، وہ ان کے باپ دادا سے خداوند

کے باندھے ہوئے وعدوں کی وجہ سے پیارے تھے۔

پادری فیلنائس: وہاں پر وہ آیت خداوند کے الفاظ میں یہ کہتی ہے۔

وہ گوسپل (انجیل) کے دشمن ہیں۔

پادری فرسی: جون میں ہم جنس پرستوں کے ماہ جشن میں، ریاست ہائے متحدہ امریکہ کی امبیسی نے

امریکی پرچم لہرایا، اور ٹھیک اس امریکی پرچم کے نیچے انہوں نے فخریہ ہم جنس پرستوں کی پرچم کشائی کی۔

اب سے چند گزشتہ سالوں سے، ہم جنس پرستی کے لیے، دنیا کی ہم جنس پرست کمیونٹیوں کی جانب سے،

تل ابیب کو دنیا کا نمبر # پسندیدہ شہر قرار دینے کا ووٹ دیا جا رہا ہے۔ انہوں نے سان فرانسسکو کو نہیں –

نیویارک کو نہیں، بلکہ تل ابیب کو دنیا کا موزوں ترین # شہر قرار دیا ہے۔

گلین بیخ: ہمیں اسرائیل کے قیام کے لئے مستحکم کیا گیا ہے! ہماری نشانیاں ہر جگہ ہیں۔

اپنی جیب سے ایک ڈالر کا نوٹ نکالو۔ اس پر گریٹ سیل (عظیم مہر) کو غور سے دیکھو۔

عقاب کے پروں کے درمیان غور سے دیکھو، تو تم کو وہاں ستاروں میں پوشیدہ اسٹار آف ڈیوڈ نظر آجائے گا۔

اب یہ اسٹار آف ڈیوڈ وہاں کیوں ہے؟

جان ہیگی: ان اسٹار کے گرد شیخینا کے جلال سے بادل پھٹ گئے ہیں، جو کہ ٹیبرنکل (یہودیوں کا مسکن) کے عین

اوپر شیخینا کے جلال کی علامت ظاہر کر رہے ہیں۔ جارج واشنگٹن نے کہا، "میں اسے ڈالر پر دیکھنا چاہتا ہوں

تاکہ لوگ ہمیشہ یہ تسلیم کرسکیں گے کہ ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے لیے یہودی لوگوں نے

کیا خدمات پیش کی تھیں۔"

نہ صرف آج کے عیسائیوں کو یہ سیکھایا جا رہا ہے کہ وہ یہود-نواز اور اسرائیل نواز بنیں، بلکہ تلمود اور کباحلہ کے

عجیب و غریب عقائد کو گرجا گھروں میں عیسائی نظریات کی صورت میں گھسایا اور ٹھنسایا جا رہا ہے۔

مثال کے طو پر، بہت سے پاسٹرز (پادری) لفظ "شیخینا" کو اصطلاحاً ایسے استعمال کریں گے جیسا

کہ وہ ہیبرو اولڈ ٹیسٹیمنٹ (عبرانی زبان کے قدیم عہدنامہ) سے کچھ بیان کر رہے ہوں، جبکہ حقیقت میں یہ لفظ

کبھی بھی بائیبل میں ایک مرتبہ بھی نہیں آیا۔

رابی مان: تو کیا "شیخینا" قادر مطلق کی موجودگی کی طرف اشارہ کر رہی ہے۔

رابی وینئر: عرض ہے، ویسے یہ تو ایک مؤنث لفظ ہے۔ یہ مذکر نہیں ہے۔

ٹی وی رابی: مثال کے طور پر، اگر موزس ڈی لیؤن کہیں سے آئے اور یہ کہے کہ، "مجھے ایک خیال سوجھا ہے۔

خدا ایک عورت ہے۔" تو شائد اسے سنجیدگی سے نہیں لیا جائے۔ لیکن اب وہ یہ کہہ رہا ہے کہ قدیم راہب شیمون

شیخینا کے بارے میں یہ سیکھا رہا تھا کہ، خداوند کا نصف حصہ عورت کی شکل ہے، اور اس کا رومان

اس کے علیحدہ ساتھی، الہی القدس، کے ساتھ بطور نعمت ہے۔

ربی وینئر: تو لہذا ایک عقیدہ یہ بھی ہے کہ خداوند شاید بیک وقت آدھا عورت اور آدھا مرد بھی ہوسکتا ہے۔

رابی ابرامی: شیخینا کائینات میں خدا کے وجود میں اس کے ساتھ ہے۔ یہی اسے

ازخود منفرد خداوند کی ذات سے اسے الگ کرتی ہے۔ لیکن یہودیوں کے لیے، شیخینا اور خداوند ایک ہی ذات ہے،

اور یہ تقریباً ممنوع ہے کہ انہیں الگ تصور کیا جائے۔ پس، خداوند اپنی ذات کو سادگی سے عیاں کرنے کے لیے،

شیخینا کی صورت میں ظاہر ہوا۔

پادری فرسی: شیخینا دراصل تلمود کا کچھ حصہ ہے۔ ایسا جو کہ یہودیت کا بھی کچھ حصہ ہے،

عیسائیت کا نہیں ہے۔ اور اب تک، کتنے ہی بیبٹیسٹ مبلغین ایسے ہوں گے جنہوں نے چرچ میں اس جملہ "شیخینا پاک"

کا استعمال کیا ہوگا، اور جبکہ کسی صحیفے میں اس کا وجود ہی نہیں ہے۔

ٹی وی مبلغ : دوستوں، ہمیں اس کو مضبوطی سے سمجھنا ہوگا کہ شیخینا پاک ہمارے اندر ہی ہے۔ اس

وجود جسکے بارے میں ہم بات کر رہے ہیں، یہ وجود چیلوں کے اوپر کے خانہ سے وارد ہوا ہے کہ،

اس شیخینا پاک کا جلال – یہ ہمارے اندر بطور مومن سمایا ہوا ہے۔

پادری اینڈرسن: بائبل اس بارے میں جنیسز سے ہی بہت واضح ہے کہ خداوند واحد "مذکر" ہے نہ کہ کوئی "مؤنث"۔

اگر تم یہ سیکھاتے ہو کہ خداوند بیک وقت ایک "مذکر" اور ایک "مؤنث" ہے تو تمہارا معبود مختلف ہے۔

بائیبل یہ سیکھاتی ہے کہ انسان، خدا کی شبیہہ کی صورت بنایا گیا تھا،

اور کرنتھینز میں بائیبل کہتی ہے:

"درحقیقت ایک مرد کو اپنا سر نہیں ڈھانپنا چاہیئے، کیوں کہ وہ خداوند کی صورت اور اس کا جلال ہے:

لیکن عورت مرد کا جلال ہے۔"

پادری اینڈرسن: تو کرنتھیوں کے مطابق، مرد کو سر نہیں ڈھانپنا کیونکہ مرد خدا کی شبہیہ کی

صورت ہے، یعنی عورت کی زد ہے یہاں تک کہ جینیسز : میں بھی، اس کا بیان ہے کہ:

"تو خداوند نے انسان کو خود اپنی شبیہہ کی صورت پیدا کیا، اپنی صورت میں خداوند نے پیدا کیا اس کو؛

مرد اور عورت کو اس نے پیدا کیا. "

پادری اینڈرسن: وہ مرد اور عورت پیدا کیے گئے تھے، خاتون، لیکن وہ خدا کی شبیہہ کی صورت میں پیدا کیا گیا تھا۔

اس کا کیا مطلب ہوا کہ خداوند کی شبیہہ میں؟ یعنی کہ جس طرح خداوند نظر آتا تھا۔ جب یسوع اس زمین پر چلتا تھا،

تو وہ ایک مرد تھا، اور خداوند بطور باپ مذکر ہوا۔ یہ نئے زمانے کے تصوف کی گستخانہ اختراعی تعلیمات

ہیں جس کے مطابق دھرتی ماں بطور ایک عورت کی روح اور دیویاں لائق عبادت ہیں،

یہ دراصل کبالحہ اور نیا زمانہ ہے - جہاں سے یہ سب مواد آیا ہے۔

لیونارڈ نموئے: یہ حرف شن کی شکل ہے۔ عبرانی حرف تہجی شن – اس زبان کا بہت ہی دلچسپ حرف۔

یہ لفظ شددائی کا پہلا حرف ہے، لفظ شالوم کا پہلا حرف، اور

لفظ شیخینا کا پہلا حرف بھی یہی ہے،

جو خدا کے نسائی پہلو کا نام ہے.

اسپاک: سراچھ کی شبہیہ، خوشحال اور پائندہ باد، بطور ہم سب کے باپ اب ہم حق پر قائم ہیں۔

لینارڈ نیموئے: بہت ہی اعلی ہے۔ لوگ کو احساس نہیں کہ وہ اس لغو سے ایک دوسرے کو سلامتی بھیج رہے ہیں (ہنستے ہوئے)

جب عیسائی اس فلم میں اب تک پیش کی گئی معلومات کے بارے میں جانیں گے، تو بہت سے اس خیال میں ہی

الجھ جائیں گے کیا یہودی طبعی طور پر ابراہیم، اسحاق اور یعقوب کی نسل سے ہیں اور یہ کہ باقی

تمام غیر-یہودی ہیں... لیکن کیا یہ واقعی اتنا آسان اور سادہ ہے؟

پادری اینڈرسن: ایک ہی واحد راستہ ہے جس سے کوئی شخص واقعی یہ ثابت کرسکتا ہے کہ وہ یہودی ہے اور وہ ہے

جینیالوجی (علم الانساب - شجرہ نسب)۔ درحقیقت آج کے بہت سے نام نہاد یہودی نہیں جانتے کہ ان کا اصلاً تعلق کس قبیلہ سے ہے۔

کیا یہودی کمیونٹی میں لوگ یہ جانتے ہیں کہ "ارے میں تو تبدیل شدہ ہوں" یا "ارے، میں

تو واقعتاً جودا یا بینجمن کے قبیلہ سے ہوں یا فلاں کے قبیلہ سے ..."

رابی مان: جہاں تک قبیلہ کا تعلق ہے، ہم نہیں جانتے۔ مجھے نہیں معلوم میرا کس قبیلہ سے تعلق ہے۔

صرف ایک ہی قسم کے لوگ جو جانتے ہیں اور وہ ہیں کوہن۔ وہ اس لئے جانتے ہیں کیونکہ وہ باپ سے بیٹے، نسل در

نسل منتقل ہوئے۔ کیونکہ ان کے ہاں اب بھی کچھ یقینی چیزیں ہیں جو کہ صرف کوہنز/پریسٹس ...

کی یقینی تبرکات ہیں جو وہ کہتے ہیں کہ یہ وہ ہے اور یہ ہوگا وغیرہ۔ تو انہوں نے اپنے حسب نسب کو سنبھال کر رکھا ہے۔ جسے وہ جانتے ہیں

خود اپنے بارے میں، مجھے کوئی اندازہ نہیں کہ میرے جد امجد کس قبیلے سے تعلق رکھتے ہیں

پادری اینڈرسن: اور آپ یہ کہہ رہے ہیں کہ ممکن ہے اکثر یہودی نہ جانتے ہوں گے کہ وہ کس قبیلہ سے ہیں؟

رابی مان: کوئی بھی نہیں. اسے محفوظ نہیں کیا گیا۔ آج اس کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ بالکل نہیں۔

پادری اینڈرسن: اگر اس سے واقعی کوئی فرق پڑا ہے کہ کون اسرائیلی نسلوں سے ہے اور کون نہیں ہے،

تو پھر خدا نے کیوں ہمیں علم الانساب سے دور رہنے کو کہا ہے؟

پادری رومیرو: ٹائیٹس : میں بائیبل کہتی ہے کہ ہمیں نسبیات سے دور رہنا چاہیے۔ نیا عہد نامہ اس بارے

میں بہت واضح ہے۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ آپ کے طبعی آباؤ اجداد کہاں سے آئے۔

پادری اینڈرسن: مسیحت میں نہ ہی کوئی یہودی ہے اور نہ ہی کوئی غیر-یہودی۔ بائیبل واضح طور سے کہتی ہے:

"یہودی اور یونانی کے درمیان کوئی فرق نہیں۔"

تو آج ہم یہ کیوں سوچتے نہیں کہ یہودیوں اور یونانیوں میں کوئی فرق ہے؟ اور ہم یہ سمجھتے ہیں کہ

آیا کہ کسی نہ کسی طرح کوئی ابراہیم، اسحاق، اور یعقوب کی نسل سے ہے، کہ وہ بس قدرتی طور سے

خداوند کے چنیدہ لوگ ہیں، چاہے وہ یسوع مسیح پر یقین رکھتے ہوں یا نہیں۔

ہوسکتا ہے کہ اُن کا جسمانی طور سے ختنہ ہوا ہو، لیکن بائیبل کہتی ہے کہ دراصل دل ختنہ کا ہوتا ہے، اور

وہ روح ہے جو تمہیں خداوند کی کی نظروں میں یہودی بناتی ہے۔

پادری اینڈرسن: ٹیموتھی ، کی آیت میں فرمایا گیا "نہ تو کہاوتوں پر توجہ دو اور نہ ہی

لامتناہی نسب ناموں پر، " – میں چاہتا ہوں کہ آپ یہ جملہ اپنے ذہن میں رکھیں - "لامتناہی نسب نامے"

جو سوالات ابھارتے ہیں، بجائے اس کے جو خدائی طور سے سمجھائے گئے جو کہ ایمان میں شامل ہے: تو پھر

"اب ٹائیٹس میں ہے، اس نے اب کہا، "لامتناہی نسب ناموں سے اجتناب کرو۔" یہاں وہ "لامتناہی نسب ناموں" سے دور رہنے کو کہہ رہا ہے۔

اب میں آپ کو یہاں یہ دیکھانے جا رہا ہوں کہ کیوں نسب نامے لامتناہی سلسلے ہیں۔ وہ حقیقتاً لامتناہی ہی ہیں۔

یہ خاکہ یہ دیکھاتا ہے کہ ایک فیملی ٹری کیسا ہوتا ہے۔ اب اس فیملی ٹری کے نچلے حصے پر، ہمارا صرف ایک

فرد ہے، جو کہ آپ ہیں۔ اب آپ کے پیچھے دو افراد ہیں، کیا ایسا نہیں ہے؟ آپ کی والدہ اور آپ کا والد۔

تو، اگر ہم ایک نسل پیچھے جائیں، تو آپ دو افراد سے بطور براہ راست اگلی نسل سے ہوں گے،

لیکن اگر ہم آپ سے پیچھے ایک اور نسل کو شمار کریں، تو آپ کے صرف دو ہی گرینڈ پیرنٹ نہ ہوں گے۔ بلکہ

چار والدین کے والدین ہوں گے، اور یہ سلسلہ مسلسل دوگنا ہوگا کیونکہ آپ کے والدین ، آپ کے والدین کے والدین، پھر آپ کے آباؤ اجداد کے والدین،

اسکے پیچھے جد ابجد کے والدین، اور اس طرح آپ کے پاس پیچھلے جد ابجد کے والدین ہوں گے۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر میں اپنا ایک شجرہ نسب یا فیملی ٹری بنانا چاہوں جو پچھلی نسلوں پر مشتمل ہو،

تو اس کے لیے مجھے ایک کافی چوڑے صفحہ کاغذ درکار ہوگا جس کی سب سے پہلی اور اوپری سطر میں،

میں اُن لوگوں کے نام لکھ سکوں، کیونکہ اسی ترتیب سے میں اپنے پچھلے جنریشن (نسلوں) کے براہ راست

ناموں کی فہرست مرتب کرسکوں گا۔ اب اگر میں پچھلی نسل تک جانا چاہوں، تو پھر مجھے یہی کاغذ

دوگنی چوڑائی میں درکار ہوگا کیونکہ اب مجھے نام ایک ہی لائن پر لکھنے کے لیے خانے درکار ہوں گے۔

اچھا، تو اب کیا ہوگا، وہ یہ کہ ہم مزید پیچھے جائیں گے، تو یہ عدد واقعی بہت ہی بڑا ہوجائے گا۔ اس بات کو سمجھنے کے لیے

کہ یہ چارٹ کیسے کام کرتا ہے، ہمیں یہ جاننا ہوگا کہ جنریشن (نسل) کتنی بڑی ہے۔

ایک اوسط نسل کتنے عرصہ پر مبنی ہوتی ہے؟

ڈاکٹر ڈونلڈ یاٹس: ویسے تو، وہ کہتے ہیں کہ - سال۔

پادری اینڈرسن: اب ایک نسل کا زندگی کی طوالت سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ مثال کے طور پر، میری ماں جب

سال کی تھی، تو اس نے مجھے جنم دیا، اور خواتین عموماً تا سال عمر کے درمیان

درمیان بچے جنم دیتی ہیں، تو سال کی عمر کو بطور ایک اوسط عمرتعین کر لیتے ہیں، اور سال ایک

متناسب عدد ہے، نسل کی شماریات کے لیے سال ایک محتاط عدد ہے۔ لہذا ایک نسل سال کی ہوئی،

یعنی اگر کسی کے یہاں سال کی عمر میں بچہ کی پیدائش ہوئی، اور پھر ان کے بچوں کے یہاں بچہ کی

ولادت ہوئی جب وہ سال کے ہوئے۔ اس طرح نسل پر زندگی کی کُل میعاد سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔

تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ اگر ہمیں گزشتہ نسل در نسل پیچھے جانا ہو تو اس کی عمر سال بنے گی۔ چلیں،

اسے ایک نقطہ مان لیتے ہیں اور اس طرح ہم اپنے فیملی ٹری میں تقریباً گزشتہ پشتوں تک پہنچے، جبکہ ہم

کو تقریباً سال تک پیچھے جانا ہوگا۔ اب چونکہ ہمارا فیملی ٹری وسیع طور پر پھیل رہا ہے، جبکہ ہم ایک ایسا

مکمل فیملی ٹری بنا چاہتے ہوں جو ہماری گزشتہ تمام پشتوں (نسلوں) کو دیکھا سکے، اس کے لیے ہم کو ایک

ایسا وسیع تر کافی چوڑا کاغذ درکار ہوگا جس میں خانے سما سکیں تاکہ پشتوں پہلے، جو کہ ممکنہ

طورپر لوگ ہوں گے، جو کہ براہ راست نسلوں سے منسلک ہوں گے۔ یہاں میں نے یہ محسوس کیا کہ جب

میں نے اپنے فیملی ٹری کو دیکھا، جب میں ویں پشت پر پہنچا، تو کیا آپ جانتے ہیں میں نے کیا

محسوس کرنا شروع کیا؟ وہ یہ کہ اب یہ کوئی منفرد لوگ نہیں کیونکہ اُن سالوں میں نادانستہ طور

پر آپس میں بھی کچھ شادیاں ہوتی تھیں۔ چلیں اب ویں نسلی پشت کی طرف چلتے ہیں۔ تو اب ہم

تقریباً سن صدی کے قریب پہنچتے ہیں۔ اچھا، تو اگر میں اپنے تمام آباؤ اجداد کا شجرہ نسب کھوجنا چاہوں،

تو مجھے کاغذ کا اتنا وسیع چوڑا ایک ایسا صفحہ درکار ہوگا جس پر ,, نام سما سکیں۔ یہ تو بہت ہی بڑا

کاغذ ہوگا۔ تو سال میں، اگر میں اپنے تمام آباؤ اجداد کی پشتیں کھوجنا چاہوں، اور اگر میں آپ کو بتاؤں کہ

سن میں میرے آباؤ اجداد کون ہیں، تو مجھے آپ کو ایک ایسا فیملی ٹری دیکھانا ہوگا جس کے

سب سے اوپر تقریباً ایک ملین لوگوں کے نام ہوں گے – صرف سب سے اوپر پہلی سطر میں،

اب ان سب کو چھوڑ کر نیچے کی طرف اگر ویں پشتوں پر آجاؤں، تو اب میں صرف سال

میں ہی ہوں گا۔ اور اب تک میں مسیح کے دور کے قریب بھی نہیں پہنچ سکا ہوں، کیا میں پہنچ سکا ہوں؟ نہیں۔

اگر میں سال پر واپس جاؤں، تیس نسل پیچھے، تو اس نسل میں میرے اجداد کی تعداد ,,,

ہوگی۔ سنیں، وہ تمام منفرد نہیں ہیں۔ جب میں نے اپنی جنیالوجی کرائی، تو میں نے یہ تعلق دیکھا کہ ایک جانب

میری ویں پشت کی دادی تھیں اور جبکہ یہاں دوسری جانب میری ویں پشت کی دادی تھیں کیونکہ

اس دور میں لوگ نادانستہ طور پر اپنے ویں اور ویں کزنوں سے آپس میں شادیاں کرتے تھے۔ اس طرح یہ عمل

کئی بار دھرایا گیا ہے۔ اس سے ہمیں کیا معلوم ہوتا ہے وہ یہ کہ ہمارے اجداد کے بہت سے لوگ انہی لوگوں میں ہیں۔

ان کے پاس آپس میں شادیاں کرنے کے سوا کوئی چارہ نہ تھا۔ اس تعداد یا اعداد کی بنا پر یہ ناممکن نہیں۔ لیکن وہ

اصل عدد جس پر کہ ہم واپس جانا چاہتے ہیں وہ A.D. نہیں ہے۔ کیونکہ A.D. وہ سال ہے

جب تمام تر یہودی منتشر ہوگئے تھے۔ اب جب آپ یہ کہتے ہیں کہ تمام دنیا میں منتشر ہوگئے تھے، تو کیا آپ

اسے انتہائی لغوی معنوں میں یہی مراد لیں گے؟ میرا مطلب تمام قوموں کے حوالے سے ہے؟

رابی وینئر: جی ہاں، سب سے زیادہ لغوی معنی میں۔

پادری اینڈرسن: اگر ہم دوبارہ A.D. میں واپس جائیں، اور ہمیں اس وقت سے ایک فیملی ٹری بنانا ہو جو ہمیں

A.D. کے تمام ایسنٹرز (پرکھوں) کو دیکھائے، اور یہ کہ وہ کس طرح آپس میں منسلک تھے، تو A.D کے

شمار سے سب سے اوپر کی لائن میں کوئنٹلیئن، کواڈریلیئن، ٹریلیئن تعداد پر مشتمل نام ہوں گے۔ اب

یہ کون سوچے گا کہ مسیح یا ان کے کچھ عرصے بعد کوئنٹلیئن، کواڈریلیئن، ٹریلیئن لوگ اس دور

میں موجود ہوں گے؟ نہیں۔ حقیقت میں، اس وقت ایک محتاط اندازے کے مطابق تقریباً آبادی ملین تھی۔

اس ملیئن میں سے، چلیں یہ مان لیتے ہیں کہ تا ملین یہودی تھے۔ تو آپ کہیں گے، "ویسے، مجھے

یہ تعداد پسند نہیں۔" ٹھیک ہے، ایک منٹ میں اس عدد سے کوئی فرق تو پڑنے نہیں جا رہا، لہذا فی الحال بالفرض

اسے - ملین ہی مان لیتے ہیں۔ تو جب ہیکل تباہ کیا جا رہا تھا تو اس وقت دنیا کی کل آبادی ملین تھی،

اور اس کل آبادی میں سے تا ملین یہودی لوگ تھے، تب اس سے یہ بات اخذ ہوتی ہے کہ اگر اس دور میں میرا

کوئی پُرکھا (نسلی ماخذ) رہا ہوگا، تو ہر میں سے تناسب سے اس کا امکان بنتا ہے کہ وہ اسرائیلی ہوں گے۔

تو، اب اس کے بارے میں سوچیں، کہ اگر میں کسی لاٹری کا ایک ٹکٹ خرید رہا ہوں، اس لاٹری میں جیتنے والے

ٹکٹ کا امکان میں سے ہے، کیونکہ یہی جیتنے والے ٹکٹ کا کہنا ہے کہ، "تم یہودی ہو!

تم ہی چینیدہ لوگ ہو! تم ہی حقیقی اسرائیلی ہو!" میرے پاس میں سے ہی موقع ہے۔

آؒپ کہیں گے، "ٹھیک ہے، پاسٹر اینڈرسن، اگر میں سے آپ کا ہی چانس ہے، تو آپ شاید یہ لاٹری نہ جیت پائیں

کیونکہ تمہارے لئے مواقع اسے ہارنے کے ہیں۔ ٹھیک ہے، کوئی بات نہیں، لیکن اگر میں کوئنٹلین

سارے لاٹری ٹکٹ خریدوں۔ تو کیا آپ کے خیال میں کیا میں جیت جاؤں گا؟ مجھے آپ یہ سوال کرنے دیں

کہ: ابراہیم کی نسل سے ہونے کے لیے مجھے کتنی بار اس عمل کے مرحلے سے گزرنا ہوگا؟ کتنی مرتبہ مجھے

اسرائیلی ہونے کا ٹکٹ جیتنا پڑے گا؟ آپ کہیں گے، "ٹھیک ہے، آپ تو جانتے ہیں، میں ایک

سیاہ فام ہوں۔ میں افریقہ سے ہوں۔ تو میں ابراہیم کی نسل سے کیسے منسلک ہوسکتا ہوں؟ اچھا، تو اب یہاں رُک جائیں اور اس کے بارے میں سوچیں۔

اسرائیل کی اولادوں کے بارے میں سوچیں۔ اسرائیل کے بچوں میں سے ایک جوزف (یوسف) تھا: پتا ہے اس کی

بیوی کہاں سے آئی تھی؟ مصر سے۔ جوزف کی بیوی مصر سے تھی۔ مصر کہاں ہے؟ افریقہ میں۔ موسی کی بیوی

ایتھوپیئن تھی۔ ہم یہ پہلے ہی دیکھ چکے ہیں، یہاں تک کہ بائیبل کے دور میں بھی یہ واضح ہے کہ، افریقی کے ساتھ – حام کے بیٹوں کا

آپس میں میل ملاپ معمول تھا۔ اگر آپ اس کے بارے میں سوچیں، تو افرائیم اور مناسیح کے قبائل نصف حام

اور نصف اسرائیلی تھے کیونکہ اسرائیل کے بیٹے جوزف (یوسف) نے مصری عورت سے شادی کی تھی، جو کہ

حام میں سے تھی۔ تمام افرائیمی اور مناسحی لوگ حام کی نسل سے تھے۔ صرف یہی نہیں، بلکہ تمام تر تاریخ میں،

آپ کو بہت سے تاجر، اور مشنری اور فاتحین ملیں گے۔

منگولین کی ہی مثال لے لیں جو تمام دنیا میں گئے اور چین فتح کیا، جاپان فتح کیا، کوریا فتح کیا،

وہ تمام بحری بیڑے جو ایک جگہ سے دوسری جگہ اور پھر ہر جگہ پر گئے۔

اپنے لاکھوں کروڑوں پُرکھوں میں سے آپ کو صرف اور صرف ایک پُرکھا (نسلی ماخذ) چاہیئے،

آپ کو صرف اور صرف ایک ایسا پُرکھا (نسلی ماخذ) چاہیئے جو اسرائیل کی نسل سے ہو، اور پھر آپ براہ راست اسرائیل کی نسل سے ہو جائیں گے۔

آپ صرف وہاں بیٹھ کر یہ کہیں گے، "اوہ، میں تو خالصتاً ایک سفید فام شخص ہوں۔ اوہ، میں تو

خالصتاً ایک ایشیائی ہوں، میں تو بس ایک خالص افریقی ہوں۔" نہیں، ایسا نہیں ہے، ہرگز ایسا کوئی نہیں ہے۔

ٹریسا یاٹس: لوگ ہزاروں سالوں سے شادیاں اور آپس میں شادیاں کر رہے ہیں،

لہذا آپ کو کہیں بھی اصیل خالص آبادی نہیں ملے گی۔

پادری اینڈرسن: بائبل برحق تھی جب اس نے کہا کہ ہم سب ایک ہی خون ہیں۔

ٹریسا یاٹس: چاہے وہ آبادیاں بھی جو ہمارے خیال میں کہ، "وہ تو % فیصد خالص ہیں!" وہ ہرگز % نہیں

ہیں۔ کوئی بھی % نہیں ہے۔

پادری اینڈرسن: آپ وہاں بیٹھ کر نہ ختم ہونے والا شجرہ نسب بنانا شروع کرسکتے ہیں۔ لیکن یہ کبھی بھی بالکل درست نہیں ہوسکتا

کیونکہ آپ جانتے ہیں کہ آپ نسبی سلسلہ سے کیا کچھ نہیں ثابت کرسکتے؟ جیسا کہ ایک کسی سے زنا سرزد ہوا ہو

اور اس نے اپنے خاوند سے جھوٹ بولا ہو کہ، "اوہ، ہاں، یہ تو تمہارا بیٹا ہے،" جبکہ ایسا نہ تھا۔ آپ جانتے ہیں،

لوگ اپنی جینیالوجی (نسلی سلسلہ) مرتب کرتے ہیں، اور وہ تقریباً ہر چیز کو بطور گوسپل (انجیل) لیتے ہیں، جبکہ

حقیقت میں ہوسکتا ہے، کہ آپ کراہیت سے انہیں، "غیر- ولدیت کا نتیجہ" کہیں۔

ڈاکٹر یاٹس: غیر-ولدیت کے انڈیکس کا جو تخمینہ لگایا گیا ہے وہ . یا (%) فیصد فی نسل ہے،

تو اب اگر آپ نسل پیچھے جائیں، تو قرائین یہی ہیں کہ آپ شاید غیر-ولدیت کے واقعہ سے

جاملیں۔ اور یہ اس بات کو نرمی سے کہنے کا طریقہ ہے، اور اگر آپ ایک نسل کو تا سالوں کا تصور کریں،

تو اس کا مطلب سال ہوں گے، جس میں آپ کا ایک غیر-ولدیت واقعہ سے منسلک ہونا قرین طور پر لازم ہوگا۔

پادری اینڈرسن: ہر سالوں میں؟

ڈاکٹر ڈانلڈ یاٹس: ایک ہی لائن میں!

پادری اینڈرسن: ایک لائن پر!

ڈاکٹر ڈانلڈ یاٹس: ایک ہی لان میں، لیکن آپ کے پاس اور کتنی لائنیں ہوں گی؟

پادری اینڈرسن: تو واقعی، اگر کوئی اپنی جینیالوجی (نسلی نسب) کا سراغ لگائے، تو حقیقتاً کچھ نہیں بتا سکتا،

سوائے اس کہ "ارے، میں اس حقیقت سے پوری کہانی جان گیا ہوں کیونکہ میں اس علم نسب کو دیکھ رہا ہوں،"

کیونکہ ڈی این اے ٹیسٹ اب بہت سے انکشافات کرے گا۔

ٹریسا یاٹس: ہاں، ڈی این اے جھوٹ نہیں بولتا، لوگ جھوٹ بولتے ہیں۔ ڈی این اے جھوٹ نہیں بولتا۔

پادری اینڈرسن: ٹھیک ہے! لوگ کہہ سکتے ہیں، "ارے، میں تو یہودی ہوں،" یا "ہاں میں یہودی نہیں ہوں،"

لیکن ڈی این اے نہیں...

ٹریسا یاٹس: ڈی این اے کا کوئی ایجنڈا نہیں ہوتا۔ لوگوں کا ایجنڈ ہوتا ہے۔ لوگوں کے پاس جھوٹ بولنے کے

کئی جواز ہوتے ہیں، اور یہ بھی شاید کہ وہ سچائی کو جانتے ہی نہ ہوں۔

پادری اینڈرسن: یقیناً، تو صرف یہی نہیں کہ وہ جھوٹ بول رہے ہوں، بلکہ بات صرف اتنی ہے کہ وہ غلطی پر ہیں۔

وہ صرف غلط معلومات کو آگے بڑھا رہے ہیں۔

ڈاکٹر ڈانلڈ یاٹس: ہر میں سے امریکی گود لیا ہوا ہے یا اس کے والدین میں سے کوئی گود لیا گیا تھا۔

جو کہ ایک اچھی خاصی تعداد بھی ہے۔

پادری اینڈرسن: مجھے یہ کون بتا سکتا ہے کہ تمہاری نسل کی قطار میں سب لوگوں میں سے کتنے گود لئے گئے

تھے؟ "اوہ، ہاں، قبل میرے فلاں جد ابجد گود لئے گئے تھے۔" آپ یہ یاد ہی نہیں کرنے جا رہے ہیں۔ لہذا،

اس میں بے شمار ایڈاپشنز بھی ہیں، بے وفائی بھی ہے، سفر بھی ہیں، فتوحات بھی ہیں،

تاجر بھی ہیں، مبلغین بھی ہیں۔

ٹریسا یاٹس: مختلف لوگ مختلف وجوہات کی وجہ سے وہ کچھ چھپاتے ہیں جو چھپانا چاہتے ہیں،

اور وہ آپ کو صرف وہی کچھ بتاتے ہیں جو وہ آپ کو سنانا چاہتے ہیں۔

پادری اینڈرسن: اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ تمہارے اجداد کہاں سے ہیں، لوگوں۔ کیا تمہیں معلوم ہے کہ خداوند

نے کیوں اس سے اجتناب کرنے کو کہا ہے؟ کیونکہ محض اس عدد کے بارے میں سوچنے سے ہی ذہنی اذیت ہوتی

ہے! یہ اعداد ذہن کو تبدیل کر دیتے ہیں۔ پس اسے نظرانداز کرو۔ لامتناہی شجرہ نسب سے اجتناب کرو۔ کیا یہ تمہیں

یہ یقین دلا سکتا ہے کہ اب تم کس قوم سے ہو؟ نہیں، یہ کئی سوالات کو اٹھا دیتا ہے۔

اس کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے، جو ڈی این اے ٹیسٹ کرانے کے لئے ڈی این اے لیب جائے،

اور واپس آ کر یہ کہے کہ، "تمہارے یہ یہودی آباؤ اجداد ہیں۔"

رابی وینئر: میرا اُن کے ساتھ کوئی اختلاف نہیں ہے۔

پادری اینڈرسن: کیا یہ تم قبول کرو گے؟

رابی وینثر: جی بالکل کروں گا۔

پادری اینڈرسن: یہ اس لئے بہت ممکن ہے کیونکہ وہ بہت زیادہ بکھرے ہوئے تھے۔

رابی وینئر: جی ہاں بالکل، میں اس معاملہ پر کبھی کوئی بحث نہیں کروں گا۔

پادری اینڈرسن: اس فلم کے ڈائریکٹر، پال ویٹن برگر، اور میں، محض دو سفید فام ساتھی ہیں۔

ہمیں یہ کبھی نہیں بتایا گیا کہ ہم جوئش (یہودی) ہیں یا ہمارا کوئی جد ابجد یہودی رہا ہوگا،

لیکن ہم اپنا ڈی این اے ٹیسٹ کروانے DNA لیب جا رہے ہیں، تاکہ ہم یہ دیکھ لیں کہ کیا نتیجہ آتا ہے۔

لیب ٹیکنیشن: ہم آپ کے ڈی این اے پروفائیل کا موازنہ دنیا بھر کے سے زائد آبادی کے گروپس سے کریں

گے، اور پشتوں کے ڈی این اے کے لئے، ہم آپ کو سب سے اونچے نتائیج پیش کریں گے، ہمیں تھمب پرنٹس لینے کی ضرورت نہیں ہے۔

جیسا کہ یہ کوئی قانونی دستاویز نہیں ہے، تو ہمیں صرف آپ کے لعاب اور نام کی ضرورت ہے۔

تو یہ سب کام آج رات ہوجائیں گے۔ اور ہمیں اس کے نتائج تا ہفتوں کے بعد مل جائیں گے۔

پادری اینڈرسن: چند ہفتوں بعد میں اور پال نتائج حاصل کرنے گئے، اور جس طرح انہوں نے کہا تھا،

ہم بہت سی مختلف قوموں کا مرکب تھے۔ ہمارے اندر سب خصوصیات موجود تھیں،

عربوں سے لیکر برازیلین تک، مقامی امریکی اور دیگر بہت سی ایسی چیزیں تھیں جس نے ہم کو حیران کر دیا،

اور کافی حد تک، جب ہم نے گہرائی سے اپنا ڈی این اے نسبتی کوائف کو دیکھا، جو کہ ویں سے بھی اوپر کی خصوصیات سے مزید

آگے چلی گئیں تھیں، وہ یہ کہ ہم دونوں میں یہودی DNA کی علامات پائی گئیں تھیں، لہذا میں نے سوچا کہ اگر میں

اپنی دادی کا ڈی این اے ٹیسٹ کراؤں کہ معلوم تو ہو کہ آیا اُن کے ٹاپ میں یہودی عنصر ہے۔ ہم نے میری

دادی کا ٹیسٹ کرایا۔ وہ سال عمر کی ہیں، اور وہ جبکہ اب تک ہمارے درمیان موجود ہیں، ہم ان کے لعاب کا ٹیسٹ کرانا چاہتے تھے۔

ٹریسا یاٹس: اوہ، جی ہاں، یہ تو بہت ضروری ہے۔

پادری اینڈرسن: تو پھر ہم نے یہ حاصل کرلیا۔ ٹھیک ہے، دادی اماں کے نتائج آگئے ہیں۔ اب انہیں چیک کرتے ہیں۔

ٹھیک ہے، سب سے پہلے ان کے ٹاپ دیکھتے ہیں نمبر -

اشکنازی یہودی - نمبر ۔

پال وٹن برگر: ناممکن!

پادری اینڈرسن: یہ تو اس کی وضاحت کرتا ہے کہ میری ڈیپ اینسسٹری کیوں ہے، کیونکہ قومیتوں میں میری

دادی کا نمبر # ہے۔ اور ان کا # نتیجہ ہنگیرین اشکنازی یہودی تھا،

تو انکا # نتیجہ اشکنازی یہودی تھا۔

ٹریسا یاٹس: واہ، بہت خوب، ڈی این اے کنسلٹنٹ کے ساتھ، مل کر بہت سال پہلے ہمیں یہ کام کر لینا چاہیئے تھا۔ میں

ایسا بہت کم دیکھا ہے، اور ہر رپورٹ میں، جیسا کہ میں کہہ رہی ہوں، یہ منفرد ہے۔ لوگ تو ایک جیسے ہی ہیں،

"اوہ، یہ شاید بہت عام سا ہو۔" نہیں۔ ہر کوئی بہت منفرد ہے۔

مجھے یاد نہیں کہ میں نے اشکینازی نمبر # پہلے کب دیکھا تھا۔

پادری اینڈرسن: واقعی؟ بہت خوب!

ٹریسا یاٹس: ہو سکتا ہے یا بار۔

پادری اینڈرسن: تو، مجھے تم سے یہ پوچھنے دو...

ٹریسا یاٹس: یہ بہت نایاب ہے۔

پادری اینڈرسن: تو اگر دادی اماں کا ڈی این اے نمبر# اشکینازی ہے،

تو کیا اس میں کوئی شک ہے کہ وہ ایک اشکینازی یہودی ہیں؟

ٹریسا یاٹس: نہیں۔

پادری اینڈرسن: اور اگر وہ میری دادی ماں ہے تو یہ مجھے کیا بنا دیتی ہیں؟

ٹریسا یاٹس: تم یہودی ہو۔

پادری اینڈرسن: تو میں ایک یہودی ہوں؟

ٹریسا یاٹس: تم کو اس مذہب کو قبول کرنے کی ضرورت نہیں۔

پادری اینڈرسن: درست، لیکن میرا مطلب نسلی اعتبار سے...

ٹریسا یاٹس: نسلاً تو تم ہو۔

پادری اینڈرسن: تو اب تم نے مجھے قرار دے ہی دیا...

ٹریسا یاٹس: میں تمہیں یہودی قرار دیتی ہوں!

(ہنستے ہوئے)

پادری کولمین: تو کیا واقعی اس سب کچھ کا یہی حاصل ہے؟ خدا حافظ! ڈی این اے؟ کیا تم مجھ سے مذاق کر رہے ہو؟

یسوع کا کیا ہوگا؟ مسیح پر عقیدے کا کیا ہوگا؟ دنیا میں خداوند کے چنیدہ لوگوں کو کیا ڈی این اے سے

پرکھ کر تعین کیا جائے گا؟

پادری برنیز: دیکھو، اسے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ ہماری جنیالوجی (نسب نامہ) کیا کہتی ہے۔ اس سے کوئی فرق نہیں

پڑتا کہ ہمارے ڈی این اے نتائج کیا ہیں۔ ان میں کوئی بھی اتنا اہم نہیں ہے۔ صرف ایک چیز جس سے واقعی فرق پڑتا

ہے وہ یہ ہے کہ ہم یسوع مسیح پر ایمان رکھتے ہوئے ہی خداوند کے بچے ہیں۔

پادری کولمین: اور مجھے کافی بہت سارے ثبوت مل گئے ہیں کہ وہاں جو اسرائیل ہے وہ اسرائیل نہیں ہے جس کے

بارے میں خداوند بات کر رہا ہے۔ ہم وہ ہیں جنہوں نے خداوند پر یقین کیا، جنہوں نے ابراہیم پر یقین کیا،

ہم خداوند کے بچے ہیں۔ ہم ابراہیم کی نسل سے ہیں۔

پادری رومیرو: رومنز : میں کہا گیا ہے کہ،

"اور نہ ہی وہ سب، اس سبب سے کہ وہ ابراہیم کی نسل میں سے ہیں سو اس کی اولاد ہیں: لیکن، خداوند نے کہا تیری

نسل اسحاق کے وسیلے سے پہچانی جائے گی۔ یہی وہ بات ہے، کہ وہ جسمانی طور سے بچے ہیں، مگر یہ تمام خداوند

کے فرزند نہیں ہیں: لیکن وعدہ کردہ اس کی نسل کے لیے اس کی اولاد ہیں۔"

پادری رومیرو: تو بائیبل یہ کہتی ہے کہ گوشت پوست کے بچے، ابراہیم، اسحاق اور یعقوب کے طبعی بچے -

جن کا خصوصی ذکر کیا گیا اور کہا گیا

کہ وہ خدا کے بچے نہیں ہیں۔

پادری برزنس: درحقیقت، گلاٹیئنز میں یہ وضاحت ہے کہ ہم ابراہیم کی اولاد ہیں۔

آیت یہ کہتی ہے،

"تمہیں معلوم ہونا چاہئے کہ ابراہیم کے سچے فرزند وہی لوگ ہیں جو ایمان والے ہیں۔"

ٹیکزی مارس: میرے لئے یہ انتہائی حیرت انگیز ہے کہ عیسائیوں نے گلاٹیئنز کو کیسے نظر انداز کردیا۔ میں

اب تقریباً سال کا ہوں۔ میں ایک بوڑھا آدمی ہوں۔ لیکن میں نے زندگی میں کبھی بھی نہیں، گلاٹیئن : پر واعظ نہیں سنا۔

"اس میں نہ کوئی یہودی ہے اور نہ یونانی ، نہ غلام ہے اور نہ ہی آزاد، اس نہ کوئی مرد ہے

اور نہ ہی کوئی عورت: یسوع مسیح میں تم سب ایک ہو۔ اور اگر تم مسیح کے ہو، تو اس لئے تم ابراہیم کی نسل سے

ہو، اور خداوند کے وعدہ کے مطابق اس کی خوشنودی کے وارث ہو۔"

ٹیکزی مارس: یہ دونوں آیات لاجواب ہیں۔ اس وعدہ کا وارث کون ہوا؟ وہی جس کے پاس یسوع ہے!

پادری اینڈرسن: ایپھیسین : بیان کرتی ہے،

"اور یاد کرو تم گوشت پوست میں غیر یہودی پیدا ہوئے تھے اور یہودیوں نے تم کو “غیر مختون” اور اپنے آپ کو

“مختون” کہا ان کی مختونی وہ ہے جو وہ اپنے جسم پر اپنے ہاتھوں سے کرتے ہیں؛

اس دور میں تم لوگ بغیر مسیح کے تھے، تم اسرائیل کی ریاست کے شہری نہ تھے، اور

تمہارے پاس کوئی عہد نامہ جو خداوند نے اپنے لوگوں سے باندھا ہو، نہیں تھا تمہیں کوئی امید نہ تھی، اور تم خدا کو نہیں جانتے تھے:

تم خداوند سے بہت دور تھے لیکن اب مسیح یسوع میں ہوتے ہوئے اس کے بہت قریب ہو مسیح کے خون کے ذریعہ سے تمہیں خداوند کے نزدیک لا یا گیا۔" پس اب تم غیر یہودی اور غیر ملکی نہیں رہے اب تم لوگ بھی شہری ہو خدا کے مقدس لوگوں کی طرح تمہارا تعلق خدا کے خاندان سے ہے۔

آیت : پس اب تم غیر یہودی اور غیر ملکی نہیں رہے، اب تم لوگ بھی شہری ہو خدا کے مقدس لوگوں کی طرح،

تمہارا تعلق خدا کے خاندان سے ہے؛"

پادری اینڈرسن: اس صحیفی آیت کے مطابق ہم اسرائیل کے شہری ہیں کیونکہ پچھلی آیت میں اس نے کہا کہ

جب تم بغیر یسوع مسیح کے تھے، تو تم اسرائیل کے اجنبی تھے۔ اسرائیل کے لیے تم اجنبی اور غیرملکی تھے،

لیکن آیت میں وہ کہتا ہے کہ اب تم عام شہری ہو

مقدس ہستیوں کے ساتھ۔ تو حقیقتاً اصل اسرائیل کون ہے؟ کیا وہ چند لوگ جو مشرق وسطی میں ہیں جو کہ یسوع کو

مانتے ہی نہیں اور شیخینا کی عبادت کر رہے ہیں؟ یا خداوند یسوع مسیح کے سچے مومن جنہیں

ایمان میں داخل کیا گیا اور اور انہیں اسرائیل پر لایا گیا۔

ٹیکزی مارس: یہ بہت آسان ہے۔ یسوع نے فرمایا میتھیو : میں،

اسی وجہ سے میں تم سے جو کہتا ہوں، وہ یہ کہ خداوند کی بادشاہت تم سے چھین لی جائے گی، اور جو قوم اُس

کی رضا کے مطابق کام کرتی ہے اس کو دی جائے گی۔"

ٹیکزی مارس: واہ۔ وہ اس کو برداشت نہیں کرسکے۔ انہوں نے یسوع کو ماننے سے انکار کر دیا۔ انہوں نے

توبہ کرنے سے انکار کردیا۔ انہوں نے زائیون کی خوشخبری دینے والے کو پہچاننے سے انکار کردیا: عظیم یسوع مسیح کو! اور یسوع نے کہا

اس ارتکاب کی وجہ سے، بادشاہت تم سے چھین لی جائے گی اور ایک دوسرے ملک کو دے دی جائے گی۔

ٹھیک ہے، لیکن یہ ملک کونسا ہے؟ کیا یہ شام ہے؟ امریکہ ہے؟ کیا یہ انگلینڈ ہے؟ کیا یہ جرمنی ہے؟ نہیں، نہیں، نہیں!

ایک روحانی قومیت ہے!

"لیکن تم لوگ ایک چُنیدہ نسل سے ہو، اور بادشاہ کے شاہی دینی پیشوا ہو، ایک مُقدس قوم کے، منفرد اور غیر معمولی لوگ ہو؛

اور اُس نے تمہیں اِس لئے چُنا کہ تم اس کی حمد و ثنا بیان کرو جس نے تمہیں گناہوں کے اندھیرے سے باہر نکال کر اپنی پُرنور روشنی میں بُلایا ہے؛

ایک وقت تھا کہ تم خداوند کے لوگ نہ تھے، لیکن اب تم خداوند کے لوگ ہو:

پہلے تم نے رحمت حاصل نہیں کی تھی لیکن اب تم کو خداوند کی رحمت حاصل ہوئی۔

پادری اینڈرسن: بائیبل کوئی ایسی کتاب نہیں ہے جو صرف خداوند کے کسی ایک قوم کو بخشنے کے بارے میں بتائے۔

اسی لیے خداوند نے ابراہیم سے کہا، "تم زمین کی تمام قوموں سے زیادہ برکتیں پاؤ گے۔ اور ساری قوم ابراہیم کی

نسل، خداوند یسوع مسیح، کے وسیلے سے برکت پائے گی۔

پادری فرسی: تم پتا ہے، بائیبل ہیبروز میں کہتی ہے کہ ابراہیم کسی طبعی سرزمین کی تلاش میں نہ تھا۔ وہ

تو ایسا شہر ڈھونڈ رہا تھا جس کی بنیادیں خداوند نے رکھی تھیں اور

جس کا معمار اور بنانے والا خود خداوند تھا۔

پادری برزنس: ہم بطورعیسائی ایک نئے یروشلم کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ ہم ایک بہشتی شہر کی طرف دیکھ رہے ہیں

جیسا کہ ہیبروز ، باب عقیدہ، نشاندہی کرتا ہے،

لیکن وہ لوگ دراصل ایک بہتر یعنی آسمانی ملک کی تلاش میں تھے: اسی لئے وہ خود ان کا خداوند کہلانے سے نہیں

شرمایا: اور اس نے ان کے لئے شہر تیار کیا۔"

پادری برزنس: خداوند نے ہمارے لئے ایک شہر بنایا ہے۔ ایک شہر جسے ہم طبعی طور پر اس دنیا میں نہیں پاسکتے

کیونکہ یہ ایک بہشتی شہر ہے۔ یہ وہ کچھ ہے جسے خداوند نے بنایا ہے،

اُن لوگوں کے لیے جو اس پر یقین رکھتے ہیں۔

پادری جمینز: جب ہم زائیون کو تلاش کر رہے ہوتے ہیں، اور جب ہم یروشلم کو تلاش کر رہے ہوتے ہیں، تو ہم

اس ایک کی تلاش میں نہیں ہوتے جس کے ابھی ہیں۔ ہم اس کی طرف نہیں دیکھ رہے جسے ہم چھو سکیں۔

ہم اس ایک کی طرف نہیں دیکھ رہے جو کہ روحانی صدوم ہے اور روحانی مصر ہے۔

ہم اس کے لیے دیکھ رہے ہیں جو کہ آسمانی ہے – وہ جسے ابھی آنا ہے۔

پادری اینڈرسن: بائیبل ہیبروز : میں کہتی ہے، :،

"بلکہ تم اس قسم کے مقام پر نہیں آئے ہو تم جس نئے مقام پر آئے ہو وہ کوہ صیّون ہے خدا کے شہر آسمان کے یروشلم میں آئے ہو،

جہاں ہزاروں فرشتے خوشی کے ساتھ جمع ہیں،"

پادری اینڈرسن: تو نئے عہد نامے کے مطابق، زائیون آسمانی یروشلم ہے، طبعی نہیں ہے

یروشلم وہی ہے جو ہے۔ آسمانی یروشلم جنت سے زمین کی طرف اتارا جائے گا۔

وہی ہمارا دارلحکومت ہے۔ وہی ہمارا زائیون ہے۔

پادری کولمین: تو گویا، میں اسرائیل ہوں! وہ لوگ جو وہاں پر ہیں اسرائیل نہیں ہیں۔

اسی وجہ سے پال نے کہا، "وہ سب اسرائیل نہیں ہیں، جو اسرائیل کے ہیں:" جینیاتی طور پر شاید وہ اسرائیل کے کہے جاسکتے ہیں، لیکن یہ وہ اسرائیل نہیں ہیں جنہیں

خداوند اسرائیل شمار کرتا ہے - جو اس کے اصل ارادے میں تھے۔

وہ لوگ جو اس کے لئے حمد اور جلال کے مانند ہیں۔

پادری اینڈرسن: ہم بحیثیت عیسائی خداوند کے چنیدہ لوگ ہیں۔ ہم ہی اصل اسرائیل ہیں،

اور ہم زائیون کی طرف رواں دواں ہیں۔

ٹیکزی مارس: اس ویڈیو کا نام مارچنگ ٹو زائیون ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ یہ ایک عظیم عنوان سے مقدس انجیل کا

ایک نغمہ ہے۔ اس کا مطلب یسوع کے ساتھ انتہائی وقار و عزت کے ساتھ آگے بڑھنا ہے۔

پادری کولمین: ہم جیسے گیت گاتے ہیں، گویا "ہم زائیؤن کی طرف آگے بڑھ رہے ہیں" مجھے یہ گیت بہت

پیارا لگتا ہے۔ "ہم زائیون پر مارچ کر رہے ہیں، بہت خوب، خوبصورت زائیون۔ ہم زائیؤن کی طرف آگے بڑھ رہے ہیں،

خداوند کا خوبصورت شہر۔" یہ خداوند کا شہر ہے۔ یہ شمال کے دونوں جانب سے یہ درمیان میں ہے۔

یہ خدا کا گھر ہے، اور ایک دن وہ اسے زمین پر لا رہا ہے۔ یہ زمین پر قائم

ہونے جا رہا ہے۔ ہم زمین کو اس کا وارث بنائیں گے کیونکہ ہم خداوند کے بندے ہیں۔ ہم وہ لوگ ہیں

جو یسوع پر ایمان لائے وہی دراصل خداوند کے بندے ہیں۔ ہم ہی اسرائیل ہیں۔ ہم خدا کے نزدیک شہزادے ہیں، اور

ہم اس کے پاس ہمیشگی پانے والے ہیں۔

ٹیکزی مارس: میں یہ چاہوں گا کہ قرآن کو پھینک دیا جائے، پھاڑ دیا جائے، اور جشن کے الاؤ میں

جلا دیا جائے، اس لئے نہیں کہ مجھے مسلمانوں سے نفرت ہے۔ نہیں! بلکہ مجھے خوشی ہوگی انہیں عیسائیت میں

بدلتا دیکھ کر۔ میں تلمود اور اس کی تمام جلدوں کو ٰ - واہ، کیسا زبردست الاؤ بھڑکے گا اگر ہم یہ کرسکیں!

بحیثیت ایک عیسائی، میں کہتا ہوں، کہ ان کتابوں کو رہنے دیں۔ قرآن کو رہنے دیں۔ تلمود کو رہنے دیں،

کیونکہ لوگ اگر ان کو پڑھیں گے، تو پھر وہ نیو ٹیسیمنٹ بھی پڑھیں گے،

آپ لازماً اس نتیجہ پر پہنچیں گے کہ مسیح عیسی ہی اصل خداوند ہے۔

 

 

 

mouseover